جن کے دلوں میں خوف نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں ،جنہیں دنیا کے اسباب اور آسائش سے اس قدر رغبت ہوکہ اس کے چلے جا نے کا خوف ہی انہیں بے خوابی کا شکار کر دے، وہ ذرا سی بیماری پر ما ہر ڈاکٹروں کے پینل کے روبرو پیش ہو جا ئیںکہ کہیں اس کی وجہ ان کی زندگی کی مہلت ختم نہ ہو جائے۔جو ڈر ،خوف اور بے یقینی سے ا پنی ساری پونجی اکھٹی کر کے اس شہر سے اس شہر اور پھر اس ملک سے اس ملک در بدر ہوتے پھریں ،خوف سے مقام اور پتہ تبدیل کر واتے پھریں ۔رات کو چھت پر ہلکی سی آہٹ پر ان کی نیند ان سے روٹھ جائے اور ٹھنڈے پسینے آنا شروع ہو جائیں،چوکیداروں کو مدد کیلئے اونچی آواز میں پکارنا شروع کر دیں ،کچھ بھی نہ نکلے تو پھر بھی سا ری رات کر وٹیں بدلتے جاگ کر رات گزرے۔ایسے لو گوں کو تاریخ کے وہ اوراق پڑھنا چاہئیں جن میں قوموں نے غیرت ،عزت ، حمیت ،جوانمردی ،حوصلہ اور جرأت جیسے اوصاف سے وہ میدان فتح کئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔وہ تمام لا زوال داستا نیںجو تا ریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں ان کے محرکات میں کبھی معاشی خوشحالی ،آسودگی اور سا مان حرب نہیں رہے بلکہ قوموں کی تا ریخ جن لو گو ں نے بد ل کر رکھ دی وہ نہتے اور بے سروساماں لوگوں کے گروہ تھے جو آندھیوں کی اس طرح اس رفتار سے چلے کہ ا نہیں روکنے وا لوں کو ا پنے ہتھیار تک سنبھا لنے کی مہلت تک نہ مل سکی۔
لیکن خوفزدہ لو گوں کی لغت میں غیرت ،عزت ،حمیت ،جوانمردی ،حوصلہ اور جرأت ایسے کھوکھلے الفاظ ہیں جن کی کسی اسٹاک ایکسچینج میں کو ئی قیمت اور وقعت نہیں،جن سے فیکٹری نہیں لگتی ،جس سے بینک بیلنس نہیں بڑھتا، جس کی وجہ سے بیرون ملک عیاشی کے دورے اور تفریح نہیں ہو سکتی ،تو پھر ان سب کا کیا فائدہ؟سب بیکار کی با تیں اور لفاظی ہیں،میں ہر روز ایسی با تیں سنتا ہوں ،حکمرانوں کے منہ سے بھی اور صاحب ثروت معززین سے بھی‘ فیشن ایبل ہوٹلوں میں کافی پیتے دانشوروں سے بھی اور پر تعیش زندگی گزارتے اہل قلم صحافیوں سے بھی۔ سچ کی صحیح تصویر دکھانے والے ٹی وی اینکر پپرسن سے بھی اورغریبوں کی قسمت بدلنے کا دعویٰ کرنے والی این جی اوز سے بھی۔یہ سب ایک ایسی مٹی سے بنے ہوتے ہیں جو ذرا سی بھی گرمی برداشت نہیں کر پاتی ،چٹخنے لگتی ہے ،فوراً جنریٹر اور یو پی ایس لگوا لیتی ہے ۔کسی ٹریفک کے رش میں پھنس جا ئیں تو ان کا فشار خون تیز ہو جا تا ہے۔پریشانی میں ’’جاہل قوم‘‘ کو اول فول بکنا شروع کر دیتے ہیں،لفٹ بند ہو جائے ،ہڑتال ہو جائے ،جہاز لیٹ ہو جائے ،پٹرول پمپوں کی ہڑتال ہو جائے،چا ر دن بارش نہ ہو،کہیں سڑک پر گڑھا ہو اور گاڑی دھڑام سے اندر جا گرے۔غرض روزمرہ کی کسی بھی مشکل میں انہیں اپنے یورپ اور امریکہ میں گزارے ہوئے دن شدت سے یاد آتے ہیں اور پھر یہ ا س جاہل ،گنوار اور بد تہذیب قوم کو بے نقط سناتے پھر تے ہیں۔
ان دنوں ان کی حالت دیدنی ہے با لکل اس شخص جیسی جو کسی ایسی بس میں سوار ہو جائے جس کا ڈرائیور تیز رفتاری سے گاڑی کو پہاڑی موڑوں پر اس طرح چلا رہا ہو کہ اب گرا کہ گرا، لیکن مشاقی سے چلتا جائے اور سارے رستے میں ان لوگوں کا کلیجہ منہ کو آیا ہو،گا ڑی سے چھلانگ لگائیں تو موت اور بیٹھیں رہیں تو دل کی دھڑکن بند ہونے کا خطرہ۔ ایسے میں ان کو وہ لوگ کتنے برے لگتے ہونگے جو ڈرائیور کی مہارت پر اس کو داد دیں اور تا لیاں بجائیں۔ میرے ملک کا یہ دانشور طبقہ گزشتہ ۶۵ سالوں سے قوم کو خوف کے انجیکشن لگا رہا ہے اور گزشتہ پانچ سا لوں میں تو اس نے ماہر نشہ والے ڈاکٹر کی طرح حکمرانوں اور صاحبان طاقت کو ایسی گہری نیند کا انجیکشن لگایا کہ وہ خوف کی نیند سے بیدار ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔یہ اب بھی اس عالم خوف کوقوم پر مسلط رکھنا چاہتے ہیں لیکن کیا کریں اب معاملہ ہی کچھ اور ہے۔قصاب کی دوکان پر جب ایک مرغی ذبح کر نے کیلئے نکا لی جا تی ہے تو با قی مرغیاں سکون کا سانس لیتی ہیں کہ چلو جان بچ گئی لیکن اب قصاب کا ہاتھ تو ہما ری طرف بڑھ رہا ہے۔اب قصاب کی سرخ آنکھیں چونچیں ما ر کر ہی پھو ڑ ی جا سکتی ہیںاور نا پاک ہاتھ زخمی کئے جا سکتے ہیں۔
لیکن ان خوفزدہ کاسہ لیس اور مرعوب لوگوںکو کون سمجھائے کہ یہ میدان جنگ ان کا ہے ہی نہیں۔یہ تو نہتے اور غیرت مند لوگوں کی راہ ہے جس پر وہ جب چاہیں بے دھڑک چل پڑتے ہیںکہ انہیں کسی چیز یا قیمتی متاع کے لٹ جا نے کا خوف ہی نہیں ہو تا۔جن دنوں ا مریکہ اپنے پورے وسائل کے ساتھ ایران میں اپنے ناپاک اورخونی پنجے گاڑ چکا تھا ۔اس کی تربیت یافتہ سفاک ساواک ہزاروں لوگوں کو غائب اور لاکھوں لوگوں کوتما شہ بنا چکی تھی ،شاہ ایران کو اپنی سات لاکھ وفادار فوج کی برتری پرپورا یقین اور بھروسہ تھا ،مغربی طاقتیں اور امریکی مدد اس کے شانہ بشا نہ کھڑی تھیں ایسے میں نہتے ایرانی عوام ،ہاتھوں میں لاٹھیاںب،ھالے یا کوئی سادہ سا ہتھیار لئے سڑکوں پر نکلتے تو صرف جرأت اور جوانمردی ان کے ساتھ ہوتی۔ایسے میں ایک شعر ایران کے ہر اس شخص کی زبان پر ہوتا تھا جو انقلاب کی راہ دیکھتا تھا۔
از زلز لہ تر سند ہمہ کاح نشیناں
ما خانہ بدوشاں ‘ غم سیلاب نہ داریم
(زلزلے سے تو وہ ڈریںجو محلوں میں رہتے ہیں ۔میں خانہ بدوش ہوں مجھے تو سیلاب کا بھی ڈر نہیں) خیمہ اکھاڑا ،ذرا دورلگا لیا۔یہ بے خوفی دنیا کے ہر بڑے انقلاب اور ہر جنگ میں فتح کے پس پشت رہی ہے۔کیمونسٹ انقلاب جس نے آدھی دنیا کو اپنے زیر تسلط کیا اس کیمونسٹ مینی فیسٹو کے آخری فقرے ہیں’’مزدوروں کو اپنی زنجیروں کے سوا کھونا ہی کیا ہے اور جیتنے کو پوری دنیا پڑی ہے‘‘ جیتنے کی گھڑی انہی کا مقدر ہو تی ہے جنہیں کسی چیزکے کھونے ،لٹ جا نے اورغائب ہونے کا خوف نہ ہو۔
خوش نصیب ہو تی ہیں وہ قومیں جن کے دلوں سے موت کا خوف نکلنے کا لمحہ آ جا تا ہے۔ایسی قوم کو آج تک کسی بڑی سے بڑی طاقت نے بھی شکست نہیں دی اور ہم تو وہ خوش نصیب قوم ہیں جن کی پہچان سید الانبیاء نے یہ بتا ئی کہ انہیں دنیا سے بے رغبتی ہو تی ہے اور موت کا خوف نہیں ہو تا۔وہ جو پچکے ہوئے گالوں، کمزور جسموں اور فرسودہ تلواروں سے دنیا کی دو عالمی طاقتوں قیصر و کسریٰ سے ٹکرا گئے تھے اور تاریخ کا وہ سبق زندہ کر دیا تھا کہ فتح آج تک اسباب سے نہیں غیرت ،عزت ،حمیت ،جوانمردی ،حوصلہ اور جرأت جیسے اوصاف سے ہوتی ہے۔یہ سبق بربروں سے منگولوں تک ،مسلمانوں سے یورپ کے قزاقوں تک اور ویت نام ،انگولا ‘ہنڈراس کے نہتے عوام تک سب نے تحریر کیا اور زندہ رکھا۔فتح نہتے عوام کا مقدر ہوا کرتی ہے ۔ظالم خواہ اپنا ہو یا باہر سے آ کر مسلط ہوجا ئے رسوا کن شکست اس کا مقدر ہوتی ہے۔خوفزدہ لوگوں کا کیا ہے انہوں نے تو ہر حال میں ڈرنا ہے ،رات کو نیند کی گولیاں کھا کر سونا ہے۔صبح بلڈ پریشر کی کم کر نے کی دوائی لینا ہے ،شام کو ڈیپریشن دور کر نے کا نسخہ استعمال کر نا ہے اور پھر جو جیتے وہی سکندر کا نعرہ بلند کرکے کام میں جت جا تا ہے
۳ نومبر۲۰۰۷ء کی رات ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے کی جانے والی تقریر کے دوران صدر پرویز مشرف نے سیاہ رنگ کی شیروانی پہن رکھی تھی ،یقینا وہ اس وقت فوجی سربراہ کے عہدے پر بھی فائز تھے لیکن یہاں یہ بات یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ افواج پاکستان ایک کڑے ڈسپلن کی پابندہے جس کیلئے اپنے سربراہ کے تمام احکام کی من وعن تائیدضروری ہے۔اسی بنا پر بعض قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ پرویز مشرف پر اس رات کیے جانے والے مبینہ جرائم کی وجہ سے صرف ان کی کابینہ کوتوذمہ دار ٹھہرایاجاسکتاہے مگرفوج کے کسی بھی عہدیدارکوملوث کرنادراصل مشرف کے اس مقدمے کوکمزورکرنے کے مترادف ہوگا۔
نہ کھو بیٹھیں کہیں وہ قافلے میراث ما ضی بھی
جو ہا تھوں میں زمان حال کا پرچم نہیں لیتے