اپنے ہی قانون سے پریشان مغربی ممالک
انعام الحق
انسان اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف چل سکتا ہے مگرانسان اپنی مرضی سے مثبت نتائج نہیں نکال سکتا۔اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق جب ایک انسان نکاح یا کسی بھی رنگ میں کی گئی شادی کے علاوہ کسی غیر عورت کے ساتھ جو نکاح میں نہیں،تعلق رکھے گا اُس کے نتائج ہر صورت منفی ہوں گے۔مغربی ممالک مےںبے حےائی کے نام پر دی جانے والی ہر قسم کی آزادی کا خمےازہ اب مغربی ممالک کے قانون سازوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔برطانےہ سمےت پورے ےورپ ممیںجنسی بیماروںمیں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے حکومتیں شدید پریشان ہیں۔خود حکومتوں نے ہی وہاں بسنے والے انسانوں کو جنسی ملاپ کے ساتھ ساتھ کئی اور غیر قانونی آزادیاں دے رکھی ہیں جو سرے سے غیر ضروری ہیں۔اکثر یورپی سکولوں میں بچپن سے ہی بچے سےکس کی طرف راغب ہوجاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کالجوں اور یونیورسٹی میں سےکس کے علاوہ تمباکو نوشی اور مختلف قسم کے نشے کر کے نوجوان بہادری دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ اپنی زندگیوں کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔دنےا بھر کی نظروں میں ترقی کی مناظل تہہ کرتا ہوا یورپ سنگین بیماروں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔غیر یورپی ممالک کی نسبت دےکھا جائے تو ےورپ ممیںبھےانک واقعات کئی گناہ زےادہ رونما ہوتے ہمیںمگر ان واقعات کو مےڈےا تک نہمیںپہنچنے دےا جاتاےا اگر مےڈےا تک پہنچ جائے توخبر اُنہمیں پبلش نہمیںکرنے دی جاتی،جس سے جرم کرنے والے گروپوں کو اور شہہ ملتی ہے اور وہ نئے سے نئے جرائم اےجاد کرنے ممیںلگے رہتے ہےں۔اگرصرف برطانےہ کی بات کرمیںتو اےک تحقےق کے اعداد وشمار کے مطابق برطانےہ ممیںگزشتہ سال جنسی طور پر منتقل ہونےوالے انفےکشن پر مبنی دس سال سے زےادہ نئے کےسز رونما ہوئے ہےں۔ےعنی2009ءممیںمجموعی طور پر چار لاکھ 82ہزار696مرےض جنسی علاج کے ہسپتالوں ممیںآئے جو گذشتہ سال کے مقابلے مےں12ہزار زےادہ تھے۔ان ممیںبڑی تعداد کمسن لڑکےوں کی تھی۔ہےلتھ پروٹےکشن اےجنسی کے مطابق ان نئے جنسی مرےضوں ممیںدو تہائی اےسی خواتےن تھمیںجن کی عمر25سال سے کم تھی۔جبکہ سوزاک کے نئے کےسوں ممیں73فےصد خواتےن تھےں۔جنسی اعضاءپر مسوں کے نئے کےسز ممیں66فےصد خواتےن تھےں۔اسی طرح برطانےہ ممیںاےک جنسی بےماری چلےمےڈےا کے مرےضوں ممیںخواتےن کا تناسب88فےصد ہے۔کےا ےہ مغربی ”بے حےاءآزادی“ کے منفی نتائج نہیں؟جدےد ٹےکنالوجی اور ملکی ترقی کس کام کی جب حکومت کی اجازت سے ملک کی عوام انتہائی گندی بےمارےوں ممیںگرتے جا رہے ہوں۔مغرب حقوق نسواں اور عورت کی آزادی کا اس قدر حماےتی اس وجہ سے نہمیںہے کہ اسے عورت کی مظلومےت سے ہمدردی ہے ےا وہ اس کے معاشرتی مقام کی بہتری کا خواہاں ہے بلکہ ابتداہی سے تحرےک آزادی نسواں کے معاشی اور سےاسی مقاصد تھے۔عورت کو غیر ضروری طور پر معاشرتی،معاشی اور رےاستی محاذوں ممیںجھونک دےا گےا اور اس کے ذرےعے سرماےہ دارانہ نظام کو استحکام اور وسعت دی گئی۔اخلاقےات کی از سرنو تشرےح کی گئی جس ممیںتمام جنسی امتےازات ختم کر دےے گئے۔مذہب جو اس راہ ممیںسب سے بڑی رکاوٹ تھا کو بڑے آرام سے پکڑکر معاشرتی زندگی سے باہر نکال دےا گےا اور نجی زندگی تک محدود کر دےا گےا۔ےورپی قانون دانوں کی سفےد سوچ کا اندازہ اس بات سے لگاےا جا سکتا ہے کہ وہ عورت اور معاشرہ کے بارہ ممیںکُچھ اس قسم کی سوچ رکھتے ہمیںکہ اگر عورت آزاد اور خود مختار ہے تو معاشرہ ترقی ےافتہ،مہذب اور روشن خےال ہے اور اگر عورت چار دےواری اور گھرےلو زندگی تک محدود ہے تو وہ مظلوم اور معاشرہ جاہل ہے۔عورت پر اگر مذہب،اخلاقےات،لباس وغیرہ کی حدودوقےود ہمیںتو اےسی تہذےب تنگ نظری اور بنےادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مظہر ہے اور اگر عورت برقعہ کی پابند ہے تو ےہاں کے لوگ انتہا پسند اور دہشت گرد بھی ہوسکتے ہےں۔کےسی عجےب بات ہے کہ دنےا بھر کا جدےد نظام ہونے کے باوجود مغربی ممالک انسانےت،اخلاقےات،تمےز،احترام اورضمےر کے بغیر زندہ رہ رہے ہےں۔آزادی کا فائدہ نئی نسلمیںاس صورت ممیںاٹھاتی ہمیںکہ وہ والدےن کے بڑھاپے ممیںپہنچنے کے بعد اُنہمیںبزرگ خانوں کے حوالے کر دےتی ہمیںاور اُن کی خےر خبر نہمیںلےتےں۔ےہاں تک کہ اکثر مغربی اولادمیںاپنے والدےن کی وفات پر افسردہ بھی نہمیںہوتمیںاوراپنے ہی والدمیںکو وفات کے بعدلہد تک اُتارنے کے لئے بھی ان کے پاس وقت نہیں۔حےرت ہے مغرب میںانتہائی گھٹےا اور عجےب وغرےب آزادی ہے جس کے نتائج سے خود مغربی حکمران پرےشان ہمیں!