Home / Socio-political / لاوارث کی جنگ

لاوارث کی جنگ

سمیع اللہ ملک

لندن


لاوارث کی جنگ

ایک جنگ ہے جو ہماری کوہساروں‘ہماری وادیوں‘ہمارے شہروں‘ہماری گلیوں اور محلوں میں لڑی جارہی ہے۔یہ ایسی جنگ ہے جس کا ایندھن اول و آخر ہمارا ہی کوئی شہری ٹھہرتا ہے خواہ اس نے قمیض شلوارزیب تن کر رکھی ہو یا اس کا جسم کلف لگی خاکی وردی سے مزین ہو‘وہ لکی مروت پولیس تھانے کے گیٹ پر جل مرے یا انگور اڈہ کے کسی کچے مکان کی دہلیز پر‘یا پھر وہ کسی چھاؤنی کے دروازے پر چیتھڑوں میں ڈھل جائے‘یا کسی لاہور کے بازار میں شعلوں کی زد میں آ کر رہ جائے۔اس کا خون آلود جسم اور اس کا زرد تابوت اس ملک کی حدود کے اندر ہی رہتا اور اس مٹی کی ردا اوڑھ کر سو جاتا ہے ۔اس کا نام نذیر‘بشیر‘ماجد‘ساجدہی ہوتا ہے اور اس کے تابوت کی منزل پشاور‘مردان‘ڈومہ ڈولہ‘جہلم یا لاہور ہی ہو تی ہے اور یہ سب لا طینی امریکہ کے نہیں بلکہ پاکستان کے شہر ہیں۔

دہماکہ جب اور جہاں بھی ہو تاہے تو مائیں صرف پشتو میں بین کرتی ہیں‘پنجابی میں سرائیکی میں یا اردو میں ‘اور یہ سب پاکستانی زبانیں ہیں۔ ایسے کسی بھی شکار کو ‘وہ کسی بھی ہتھیار سے نشانہ بنا ہو‘اسے آسمان سے مو ت بن کر برسنے والے کسی میزائل نے چاٹ کھایا ہو یا زمین سے نمودار ہونے والی کسی بارودی سر نگ نے اجل بن کر کاٹ کھایا ہو۔اس کی میت بہت تکریم سے سفید کفن پہنا کر لوگوں کے درمیان رکھ دی جاتی ہے اورپھر کلمہ طیبہ کے ورد میں لوگ سر جھکائے قبرستان منوں مٹی میں پہنچا تے ہیں۔ہر مرنے والے ہر شکار ہو نے کے سفر آخرت کا مقام اور الوداع کا طریقہ کار ہر بار ایک جیسا ہوتا ہے ۔دہماکہ کہیں بھی ہوتاہے تو اس قوم کو فراہم کئے گئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے فون بج اٹھتے ہیں ‘لوگ ایک شہر کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ‘ایک شہر سے دوسرے شہر میں اپنے عزیزوں کی خیریت دریافت کرنے لگتے ہیں اور خیر خیریت کے چکروں میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اس غریب قوم کی جیبوں سے کروڑوں روپے سمیٹ لیتی ہیں۔

غرضیکہ کبھی چھری خربوزے پرگر رہی ہو تی ہے تو کبھی خربوزہ چھری پر قربان ہورہا ہوتا ہے اور ہر دو صورتوں میں بیچارہ خربوزہ زخم زخم ہو تا ہے ‘اسی کا وجود گھائل ہو تا ہے۔ٹیلی ویژن پر خود کش حملہ آوروں کے داخلے کی خبر چلتی ہے تو کاروباری مراکز کی رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں اور اس شام جن گھروں میں چو لہا جلنے میں مشکل پیش آتی ہے وہ بھی اٹلانٹک کے اس پار نہیں ‘ہمارے ہی دائیں بائیں ہوتے ہیں ۔حیرت ہے کہ ایک جنگ ہے جو ہمارے وجود کو ایک دیمک بن کر چاٹ رہی ہے جس میں شکار اور شکاری ہمارا معاشرہ ہے جس کا ہر برا اثر ہمارے ہی نامہ اعمال میں درج ہوتا ہے‘جس کے دہماکوں کی لرز سے ہمارے ہی شیشے ٹوٹتے اور ہمارے قبرستان ہی آباد ہوتے ہیں۔

جس کے کسی دہماکے سے آج تک وائٹ ہاؤس کا ایک شیشہ نہیں ٹوٹا‘جس کی گونج سے واشنگٹن ڈی سی میں کسی ایک فرد کی نیند میں خلل نہیں پڑا۔اس جنگ کو ہم اپنی جنگ ماننے کیلئے تیار نہیں ۔فاسق کمانڈوپرویز مشرف نامی ایک حکمران نے پتہ نہیں کہاں سے یہ بندوق اس دعوے کے ساتھ اپنی قوم کے کا ندھے پر رکھی کہ اس بندوق کارخ بدلنے اور توازن خراب نہ ہو نے پائے‘اس میں ہماری بقاء ہے ۔پرویز مشرف نے ہر حکیم ‘ہر عطائی‘ہر عامل اور ہر پنساری کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اپنی قوم کی کج فہمی کا علاج کسی ایسی پھکی ‘کسی ایسے ٹانک‘کسی ایسے ٹوٹکے میں ڈھونڈاجس کے استعمال کے بعداس کی قوم اس جنگ کو اپنی جنگ اور اس بندوق کو اپنی بقاء کا راز اور تحفظ کا ساز سمجھنے لگے۔

ایک نہیں دو نہیں کئی برس بیت گئے لیکن اس قوم نے اس جنگ کو اپنی جنگ ماننا تھانہ مانی۔ہر پھکی بے اثر اور ہر ٹوٹکا بے ثمر ہوتا چلا گیایہاں تک کہ ایک دوپہر پرویز مشرف قوم کی کج فہمی کا علاج کئے بغیر لا علاج چھوڑ کر اپنے آقاؤں کی گودمیں لندن چلے گئے۔اب نئے حکمران منظر پر جلوہ گر تھے‘حکمران بھی وہ جن کا نعرہ ہی’’عوام ہماری طاقت ہیں ‘‘رہا ہے۔جن کے نام کا اہم حصہ’’پیپلز‘‘یعنی لفظ عوام سے ماخوذ ہے۔خیال گمان نہیں بلکہ یقین تھا کہ نئے لوگ اپنے ان لوگوں کے اس’’ مرض‘‘ کی تشخیص کر لیں گے کہ آخر اپنی گلیوں اور اپنے گھروں میں لڑی جانے والی جنگ کو یہ قوم اپنی جنگ کیوں نہیں سمجھتی ؟لیکن مرض کی تشخیص کئے بغیر عوام کی کج فہمی کا تجزیہ کئے بغیر ہی نئے حکمرانوں نے ایک بار پھر اسی ٹانک کی تلاش شروع کر رکھی ہے جو جام پلاتے پلاتے پرویز مشرف منظر سے پس منظر میں چلے گئے۔

صدر آصف علی زرداری سے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تک اور مشیر داخلہ سے وزیر دفاع تک ہر شخص ہر اسٹیج پر سینہ پھلا کر اعلان کرتا ہے کہ کون کہتا ہے یہ ہماری جنگ نہیں ‘یہ تو سو فیصد ہماری جنگ ہے۔اگر کوئی تھوڑا سا لچک دار مؤقف اپناتا ہے تو وہ بھی یہ ہو تا ہے کہ پہلے یہ ہماری جنگ نہیں تھی مگر اب ہماری جنگ ہے۔کالم نگاروں کی ایک فوج کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام دلائل اپنی تحر یر کی تمام صلاحیتیں اس قوم کے حلق سے یہ لقمہ اتارنے کیلئے وقف کر دیں کہ’’جو کہساروں میں جنگ جاری ہے وہ ساری جنگ ہماری ہے۔‘‘لیکن صدر زرداری کا ہرٹونا ‘وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ہرٹوٹکا اور وزیر داخلہ کی ہر پھکی ہر شے بے اثر ہو رہی ہے ۔

ملک میں جب بھی کوئی دہماکہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے وزیرداخلہ رحمٰن ملک میڈیا پر آکر’’یہ جنگ ہماری ہے ‘‘کی گردان دہرانا شروع کردیتے ہیں۔گمان غالب تھا کہ اس لہر سے متا ثر ہو کر قوم اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر اپنے فہم و ادراک کا علاج کر لے گی‘لیکن قوم ہے کہ ایک لمحے یا ایک لحظے کو یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ جنگ اس کی اپنی جنگ ہے اور اسے امریکی بندوق پوری دیانتداری سے اپنے کندھے پر اٹھاکر رکھنی چاہئے۔ قوم ہے کہ اس بندوق کو موقع ملتے ہی اپنے کندھے سے جھٹک اور پٹخ دینا چاہتی ہے ‘وہ اسے ایک نا پسندیدہ عمل سمجھتی ہے جو اس پر بزور طاقت ٹھونسا گیا ہے اور ایک موہوم امید پر قوم نے انتخابات میں مشرف کے مخالفین کو کامیاب بنایا ۔یہ نتائج دراصل امریکی بندوق پٹخنے کی ہی خواہش کے آئینہ دار تھے لیکن قسمت کی ستم ظریفی کہ اس کوشش کے نتیجے میں آنے والی حکومت اس بندوق کو قوم کے کندھوں پر مزید رسیوں سے مضبوط طریقے سے باندھنے میں مگن ہے اور ایک غیر مقبول ‘ایک غیر معتبر اور مشکوک جنگ کو ’’اون‘‘(Own)کرنے میں بیان بازی کے ذریعے بازی لیجانے کا عمل جاری ہے۔حیرت اس بات پر نہیں کہ حکمران اس کو اپنی جنگ قرار دے رہے ہیں بلکہ حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ لوگ اپنے جنازے اٹھا کر ‘اپنے زخمیوں کو ہسپتال پہنچا کر بھی یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے۔

اس ملک کے خاص وعام میں سے کسی نے آج تک کسی بھی لمحے اس جنگ کو’’ہماری جنگ‘‘کا نعرہ نہیں لگایا۔یہ ایک ایسی جنگ ہے جو ہمارے دالانوں میں لڑی جا رہی ہے جس میں شکار اور شکاری ایک ہی وجود ہے جسے خود اذیتی کی جنگ کہا جا سکتا ہے ‘ایک شخص پاگل پن میں اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں پر اور پھر بائیں سے دائیں پر ضربیں لگا کر یہ سمجھ رہا ہو کہ وہ دشمن سے بر سر پیکاریامصروف جنگ ہے ۔اس جنگ میں ماچس بھی ہماری ہے اور بھسم بھی ہم خود ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ہماری جنگ نہیں۔یہ کسی اور کے گھر کی جنگ تھی ‘یہ سانڈ کسی اور ہی راہ پر دوڑ رہا تھا کہ جسے سرخ رومال دکھا کرہم نے اپنی طرف متوجہ کیا اور اب وہ پیچھے اور ہم آگے دوڑ ے جا رہے ہیں۔

ہم اس جنگ کا شکار ہیں‘اس جنگ کا ہتھیار اور ایندھن ہیں۔جب تک یہ بندوق ہمارے کندھے پر نہیں تھی ہمارے شہر روشن تھے‘ہماری گلیاں پر امن تھیں۔‘ہمارے گھر قہقہوں سے آراستہ تھے ۔ہماری پڑوسی ملک میں ایک آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے ‘اور یہ ایک بڑی بین الاقوامی جنگ لڑنے کا منطقی نتیجہ تھا جو اس سرزمین پر لڑی گئی تھی اور پھر ان زخموں کو یوں ہی ادھ کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ایسے زخموں پر رنگ برنگی مکھیوں کا بھنبھنا نایقینی ہو تا ہے ۔اس آگ کو بجھانے کیلئے اسے ہمارے گھر کی راہ دکھلائی گئی‘پہلے ایک ملک عدم استحکام کا شکار تھا اور اب ہم بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ اب چغہ پوش مسخرہ غدار ابن غدار میر جعفر و میر صادق کی اولاد حامد کرزئی بھی ہماری حالت زار پر ترس کھا کر کہہ رہا ہے کہ گزشتہ ڈھائی برس سے پاکستان کے حالات افغانستان سے بھی زیادہ خراب ہیں ۔

اس ملک کا ہر شہری یہ سمجھتا ہے کہ یہ جنگ ہماری ضرور ہے مگر اتنی کہ اس کا میدان ہمارا دالان اور اس کا ایندھن ہمارا وجود ہے۔ مقاصد‘نتائج اور اثرات کے اعتبار سے یہ پراکسی وار ہے ‘کسی اور پردے میں کسی اور کی جنگ۔ پرویز مشرف نے اسے اپنی جنگ قرار دینے کا اصرار جاری رکھا تو یہ پرویزمشرف اور قصر سفید کے فرعون کی جنگ تسلیم کر لی گئی۔موجودہ حکمرانوں کا اصرار بھی بڑھتا چلا گیا تو یہ اوباما کیساتھ ساتھ آصف علی زرداری ‘یوسف رضا گیلانی اور مشیر داخلہ رحمٰن ملک کی جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے لیکن اس جنگ میں پاکستان کی جنگ ‘پاکستانی عوام کی جنگ بننے اور قرار پانے کے کوئی اجزأ ہی نہیں۔کیونکہ پاکستانی عوام کے شعور کی سطح اب بلند ہوچکی ہے ۔وہ ’’میڈ ان امریکہ‘‘ بندوق کو’’میڈ ان پاکستان‘‘سمجھنے کا دور پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ کل بھی ’’لاوارث اورغیروں کی جنگ ‘ ‘ تھی اور آج بھی’لاوارث اورغیروں کی جنگ ‘ ‘ہے۔

اس کی وراثت کے خانے میں پاکستانی عوام اپنا نام لکھوانے پر آمادہ نہیں ۔پہلے اس خانے میں وارث کی جگہ پرویز مشرف کا نام موجود تھا اور اب آصف زرداری‘ یوسف رضاگیلانی یا رحمٰن ملک کے نام جلی حروف میں تحریرہوچکے ہیں۔بیتے کل کی طرح یہ سب نام اقتدارکے ہوس کاروں کے تو ہوسکتے ہیں لیکن پاکستانی عوام کے ہرگز نہیں۔

شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد

جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *