Home / Socio-political / یورپ کی پاکستانیت

یورپ کی پاکستانیت

سمیع اللہ ملک ، لندن

مزاحمتی قوت گر تے ہووٴں کو پیروں پر کھڑا کر تی ہے ‘ڈوبتے ہووٴں کو تیرنے کا حوصلہ دیتی ہے اور سا حل پر لاپٹختی ہے۔بیمار کو بیما ری سے جنگ میں فتح یاب کر تی ہے (اللہ کے حکم سے )بجھتے د یئے کی لو بجھنے سے پہلے تیز ہو جا تی ہے ‘کیوں؟شا ید دیا دیر تک جلنا چا ہتا ہے۔یہ اس کی مز احمت ہے ۔اندھیروں کے خلاف کبھی کوئی مسا فرکسی جنگل میں درندوں کے درمیان گھر جائے تو تنہا ہی مقابلہ کر تا ہے کہ اس کے بغیر کوئی چا رہ نہیں ہو تا ۔ایک نا تواں مر یض جوبستر سے اٹھ کر پا نی نہیں پی سکتا نا گہا نی آفت کی صورت میں چھلا نگ لگا کر بستر سے نیچے کود سکتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مر یض میں وہ مز احمتی قوت مو جو د تھی جس کا اس کو خود بھی اندازہ نہیں تھا۔خطرے کے احساس نے اس قوت کو بیدار کر دیا۔یہی وہ قوت ہے جو کمزوروں کو طا قتور سے ٹکرا دیتی ہے ‘کبو تر کے تن نازک میں شا ہین کا جگر ہ پیداہو جا تا ہے‘چیو نٹی ہا تھی کے مقا بلے میں اترآتی ہے‘مظلو م کی آنکھیں قہر بر ساتی اور سلگتے انگارے شعلہ جوالہ بن جا تے ہیں۔

لیکن تا ریخ ہمیں یہ بتا تی ہے کہ د نیا وی کا میا بی کے حصول کیلئے مز احمت کمزور پڑ کر سرد ہو جا تی ہے لیکن اگر مز احمت کے ساتھ ” ایمان باللہ“شا مل ہو جائے تو مز احمت کبھی سرد نہیں پڑ تی‘راکھ میں کو ئی نہ کوئی چنگاری سلگتی رہتی ہے جہاں مزاحمتی قوت بیدار ہو تو یہ چنگاری بھڑک اٹھتی ہے۔لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ یہ مز احمتی قوت اس وقت بیدار ہو جب خطرہ حقیقت بن کر سا منے آ جا ئے‘جب سر پر لٹکتی تلوار کی نوک شہہ رگ کو چھو نے لگے‘جب سر حدوں پر کھڑے مہیب اور دیو ہیکل ٹینکوں اور طیا روں کی گڑ گڑ اہٹ سڑکو ں اور چھتوں پر سنائی دینے لگے۔جب ڈیزی کٹر ‘کروز اور ٹام ہاک بم بارش کے قطروں کی طرح برسنے لگیں ۔جب بہت کچھ”گنوا کر“کچھ بچانے کیلئے ہم مزاحمت پر اتر آئیں گے؟جب کو ئی قوم لڑے بغیر ہی شکست تسلیم کر لیتی ہے تو یہ جسمانی نہیں ذہنی پسپا ئی ہو تی ہے ۔ایسی قوم کو جسما نی طو ر پر زیر کر نے کیلئے دشمن کو زیا دہ مشکل نہیں اٹھا نی پڑتی۔ہلا کو خان کی فو جیں کھو پڑیوں کے میناریوں ہی نہیں تعمیر کر لیا کر تی تھیں۔صلا ح الدین ایو بی نے جب ”ملت اسلا میہ“کا نام لیا تو ایک غدار فو جی افسر طنزیہ مسکرا اٹھا‘کون سی ملت اسلامیہ؟یہ ذہنی پسپائی کی سب سے گری ہو ئی شکل تھی کہ ایک دیو ہیکل انسان اپنے ہی وجود سے انکا ری تھا۔لیکن صلا ح الدین ایوبی نے مز احمت کی قوت کے ساتھ ایمان کو جمع کر کے خلیفہ ثانی حضرت عمر فا روق کے بعدبیت المقدس نا پاک ہا تھوں سے چھین لیا۔

اگر آج ہم مصیبت میں گرفتار ہیں تو ہما را دشمن ہم سے بڑھ کر مصیبت مو ل لے چکا ہے۔ایک یقینی شکست کے امکان کے با وجود محض دنیا پر ظا ہری غلبے کی خو اہش نے اسے ایک ایسی دلدل میں اتار دیا ہے جہاں اگلا قدم اس کی ظاہری شان و شوکت اور مصنوعی ہیبت کا جنا زہ نکال کر رکھ دیگا۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم جو گھروں میں بیٹھے ہیبت زدہ ہیں وہ سارے لا وٴ لشکر کو چڑھا لا نے کے باوجودہم سے زیادہ خوفزدہ ہے۔اس کی چڑھا ئی میں شیر جیسی بے جگری نہیں بلکہ لو مڑی جیسی عیاری ہے۔ہمیں دیوار سے لگ کر کا نپنے کی ضرورت نہیں‘پس آ ج ہمیں ا پنی مز احمتی قوت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد ”ایمان “ ہے اور اس قوت کو مضبوط کر نے والی قوت ”اللہ کی نصرت“ ہے۔جب مو من اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے تو مز احمت میں اللہ کی نصرت نا زل ہو کر اس کو کا میابی سے ہمکنار کر تی ہے۔

مسلمانوں کودہشتگرد،خونی اورجنونی کہنے والوں کا۳۲سالہ نارویجن نوجوان ”بہرنگ بریوک اینڈرز “بزنس ایڈمنسٹریشن میں انتہائی تعلیم یافتہ جو خودکوایک شدت پسند،کٹرعیسائی اور مسلمانوں کے وجودسے انتہائی نفرت اپنے لئے اعزازسمجھتاہے۔اس کویہ خوف لاحق ہوگیاہے کہ یورپی ممالک میں مسلمانوں کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی توایک دن یورپ گورے عیسائیوں کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے قبضے میں چلاجائے گا۔اس نے اپنے خوف کوپوری دنیاکے سامنے آشکارکرنے کیلئے اپنے ہی ۹۰ہموطنوں کوجس بہیمانہ طریقے سے خاک وخون میں نہلادیا اس نے یورپی معاشرے کے سیاستدانوں،دانشوروں اورتجزیہ نگاروں کونہ صرف ششدرکردیاہے بلکہ ان کی رات کی نیندیں حرام کردیں ہیں ۔

دنیابھرکے میڈیااورعالم اسلام کے میڈیاپراس حادثے کی خبراورفوٹیج صرف اتنی دیرتک چلی جب تک اس مجرم کے عزائم کاپتہ نہیں چلاتھا،جونہی اس مجرم کی قومیت اوراس کے عزائم کاپتہ چلاتومغربی میڈیاکوگویاسانپ سونگھ گیا۔کسی نے اس مجرم کونہ تو مذہبی انتہاپسند کہااورنہ ہی اس عمل کے بعدچرچ یا گرجا گھر کو دہشت گردی کامرکزگرداناگیا۔مغربی میڈیاکی غیرجانبداری کابھانڈہ بھی پھوٹ گیااوراس کوایک انتہائی معمولی خبرسمجھ کرمیڈیاکی تمام اسکرین سے غائب کردیاگیالیکن ہمارے ملک کے میڈیااویہاں بسنے والے روشن دماغ تجزیہ نگاروں نے بھی اس خبرکوکوئی اہمیت نہیں دی ۔یہ توشکرہے کہ خودمجرم نے اپنے واضح عزائم کااعلان کردیاوگرنہ ہمارے ملک کے وزیرداخلہ عبدالرحمان ملک فوری طور پر اپنے محافظوں کے جھرمٹ میں میڈیاکے سامنے دہشتگردی کے اس فعل کو کسی پاکستانی گروہ یااسلامی مدارس کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے کسی نئے آپریشن کااعلان کررہے ہوتے۔

مجرم (Behring Breivik Anders)بہرنگ بریوک اینڈرزنے اس قتل عام سے پہلے ”یوٹیوب“پر ایک ویڈیوپیغام میں تمام بنیادپرست عیسائیوں کو اس عظیم مقصد کیلئے شہادت کو گلے لگانے کاپیغام نشرکیااس کے بعداس نے ایک عمارت میں بم دہماکے سے گیارہ بے گناہ افرادکوبیدردی سے اڑادیااورٹھیک دوگھنٹے کے بعدمزیداس خونی کھیل میں اپنے بھیانک پروگرام کودنیاتک پہنچانے کیلئے ملک کی آزاداورروشن خیال سیاسی جماعت لیبرپارٹی کے نوجوانوں کی کیمپ میں گھس کراندھادھندفائرنگ سے ۸۲ نوجوانوں کوبھون کررکھ دیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ شدت پسندجنونی قاتل بریوک کے نفرت انگیزمینی فسٹو (Manifesto) میں کچھ ناپسندیدہ اورکچھ پسندیدہ پاکستانیوں کا ذکر بھی ملتاہے اورحیرت کی بات یہ ہے جن افرادکے ناموں سے پاکستان کے آزادخیال اورروشن دماغ افرادکے ماتھے پرتیوریاں پڑجاتی ہیں انہی افرادیعنی علامہ اقبال اور سید ابو اعلیٰ مودودی سے اپنی شدیدنفرت اور اسلام سے انتہائی بیزاری کااظہارکرتاہے۔

وہ اپنے مینی فسٹومیں کہتاہے کہ پاکستانی مسلمانوں کی آبادیاں یورپ کے تمام ملکوں میں یورپی باشندے کے مقابلے میں بڑھتی جارہی ہیں اوراورایک دن ایسا آئے گاکہ یہ سارے پاکستانی برصغیرمیں ۱۹۴۷ء کی طرح یہاں بھی دوقومی نظریے کی طرح علیحدہ وطن مانگیں گے اوراس ساری صورتحال کو(Pakistanization of Europe)” (یورپ کی پاکستانیت)سے تعبیرکرتاہے۔وہ یورپ میں اسلام کی مقبولیت اوریورپی نومسلموں کی بڑھتی ہوئی تعدادسے بہت خائف ہے لیکن وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی علمبردارحناجیلانی اورپاکستان کے انگریزی اخبارکے کالم نگاررضی اعظمی کواس لئے بہت پسندکرتاہے کہ یہ دونوں میڈیامیں اس بات کابہت پرچارکرتے ہیں کہ پاکستان میں ہندووٴں اورعیسائیوں کوزبردستی مسلمان بنایاجاتاہے۔

ہمارے آزادخیال اورروشن دماغ اس تاریخی حقیقت کوکیسے جھٹلائیں گے کہ مفتوح قومیں فاتحین کادین قبول جلد قبول کرلیتی ہیں ،اس لئے جہاں جہاں عیسائی فاتح بن کرگئے وہاں لوگ عیسائی ہوگئے ۔فلپائن میں توعیسائیوں کے جبروظلم کاایک خوفناک باب ہے لیکن اسلام دنیاکاواحدمذہب ہے کہ جب چنگیزخان نے بغدادکوتارج توکیا لیکن جب اس کی اولادکومسلمانوں کے دین سے آشنائی ہوئی تواس کے پوتے نے اسلام قبول کرلیا۔انہی کی نسل سے برصغیرمیں مسلمانوں کااقتدارقائم ہوا۔مصر،اردن،شام،لبنان اورمراکش میں جب اسلام کی روشنی پہنچی تویہاں کے لوگوں نے نہ صرف اپنارہن سہن،ثقافت بلکہ اپنی مادری زبان تک بدل ڈالی اورآج یہ تمام علاقے عالم عرب کاایک حصہ ہیں۔پھربرطانیہ ، یورپ اورامریکامیں توکوئی جبرروانہیں توپھریہاں کے لاکھوں نومسلم کس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔یہ وہ سچ ہے جس کی گواہی اللہ کی کتاب میں موجودہے”ہم نے ایک رسول ہدائت دیکربھیجا،حق پرقائم دین کے ساتھ تاکہ اسے دوسرے ادیان پرغالب کردیں،چاہے یہ کافروں کوکتناہی ناگوارکیوں نہ لگے“۔

تا ریخ اسلام کے صفحات پر ایسی روشن مثا لیں ان گنت تعداد میں جگمگا رہی ہیں جب نہتے مسلما نوں کی مز احمت نے وقت کے فرعونوں کو زخم چا ٹنے پر مجبور کر دیا ۔آج بھی دنیا بھر میں مز احمتی تحریکیں پوری شان سے جا ری ہیں ۔پتھر نے ٹینک سے شکست نہیں کھا ئی ‘معمولی ہتھیا روں سے جدید ٹیکنا لو جی کا مقا بلہ جا ری ہے ۔جتنا ظلم بڑھتا جا رہا ہے اتنی ہی شدت سے مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے۔لیکن کیا مزاحمت کی صرف ایک ہی صورت ہے؟جب کو ئی جابر وقت ا پنے لشکروں کے زعم میں کسی قوم پر چڑھ دوڑتا ہے تو ہر ہا تھ ہتھیار اٹھا لیتا ہے، یہ یقینی امر ہے کہ ایسے وقت میں اس کے بغیر مز احمت کی کوئی اور صورت نہیں ہو تی لیکن اس سے بھی پہلا مر حلہ کبھی نہیں بھو لنا چا ہئے اور ہمیں یا د رکھنا ہو گا کہ مز احمت ”ایمان“ کے بغیر کچھ نہیں۔لہندا ایسا کڑا وقت آ نے سے پہلے ”ایمان“ کو بچانا اور قائم رکھنا اشد ضروری ہے ۔ایمان کی کمزوری ہی ذہنی غلا می اور پسپائی کی طرف لیجا تی ہے۔لہندا ہر اس وار کی

مز احمت ضروری ہے جس کا نشانہ آج ایمان بن رہا ہے۔ہما ری نظریات و افکار ‘ہما را طرز زندگی‘ہما ری تعلیم‘ہما ری معیشت‘ہما را میڈیا یہ سب وہ میدان ہائے کار زار ہیں جو ہما ری مزاحمتی قوت کے شدت سے منتظر ہیں ۔یہ ڈوب رہے ہیں ان کو سا حل پر کھینچ لا نے کیلئے بھر پو ر تو انا ئیوں کی ضرورت ہے۔آج وہ خطرناک مر حلہ آ چکا ہے جب نحیف و نزار مریض زندگی کی ڈور سلامت رکھنے کیلئے اس پو شیدہ قوت پر انحصار کر تا ہے جو اس کے جسم میں بجلی کی سی طاقت بھر دیتی ہے۔

اگرامت مسلمہ نے آج اپنی ا س طاقت کے اس راز کو پا لیا جس کا نام ایمان ہے اور اس کو پختہ کر لیا تو یہ وہ مو رچہ ہے جس میں پناہ لینے والوں کیلئے دائمی فتح کی خوشخبریاں ہیں۔ایمان کی آبیاری وقت کی اولین ضرورت ہے اور وقت سر پر کھڑا ہے۔مزاحمت ایما نی قوت سے مشروط ہے ‘اس کو کھو دیا تو سب کچھ چھن جا ئے گا!!ایمان کی آبیاری کیلئے ماہ رمضان المبارک سے بہتربھلااورکون ساموقع ہوسکتاہے جب سترماوٴں سے زیادہ کریم اورشفیق خالق اپنی مخلوق کوشب وروزاپنی رحمتوں کی بانہوں میں لیکران کودونوں جہانوں کی نعمتوں سے سرفرازکردیتاہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *