Home / Socio-political / ہمیں نفرت ہے

ہمیں نفرت ہے

                                 

ہمیں نفرت ہے
                          عباس ملک حکومت اپنی معیار پورا کرنے کے قریب ہے ۔یہ پاکستان کی جمہوریت کی تاریخ کا ایک اہم ترین سنگ میل اور لمحہ ہوگا جب جہوری حکومت اپنی معیار پوری کر کے جمہوری طریقے سے نگران سیٹ اپ کا اعلان کرے گی۔ جمہوری طریقہ کار کے مطابق حکومت اب اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اپنے آپ کو احتساب کیلئے عوام کی عدالت میں پیش کرے گی۔ الیکشن میں اس کو حاصل ہونے والی نشستوں سے اندازہ ہو گا کہ عوام نے حکومت کا احتساب کیسے کیا۔ قانون اندھا ہوتاہے کا مطلب یہ نہیں کہ قانون کو نظر کچھ نہیں آتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہوتے ہیں۔ آئین بھی لولا لنگڑا نہیں ہوتا بلکہ یہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ ایک پورے معاشرے کی تہذیب وتمدن کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوتا ہے ۔آئین اور قانون کا ساتھ دینے والے اندھے اور لولے لنگڑے ہوتے ہیں۔مفادات خواہشات اور ضروریات  انہیں ایسا بنا دیتے ہیں۔صوبائی تقسیم کے نعرے لگانے والے اور نئے صوبوں کی بات کرنے والے اندھے لولے بھی مفادات اور خواہشات کے آسیر ہیں۔ جو ایک بچے کی پرورش کرنے کے روادار نہیں وہ 2کا خا ک خیال رکھ پائیں گے۔ جنہوں نے پنجابی سندھی بلوچی کا پٹھان کی خدمت کرنی ہے وہ اس حال میں بھی کررہے ہیں۔ گلگت  بلتستان کے وزیر اعلی کے اس بیان کا نوٹس کس نے لیا جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا کہ وفاق کا قانون صوبے میں اطلاق پذیر نہیں ۔ کیا مہدی شاہ کی ریاست میں پاکستان کے قانون کا کوئی اطلاق نہیں اور وہاں پر وفاقی ایجنسیاں کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر نہیں تو کیا گلگت  بلتستان پاکستان سے علیحدہ کوئی سٹیٹ ہے ۔ اگر یہ پاکستان کا صوبہ ہے تو اس میں پاکستان کا آئین کیسے اطلاق پذیرنہیں۔ اگر ہے تو صوبائی وزیر اعلیٰ نے یہ بیان کیسے اور کیوں دیا اور اس کے مقاصد کے پیچھے چھپے ہوئے بے رحم ہاتھوں کو ابھی تک محسوس کیوں نہیں کیا گیا۔پاکستان کو موروثی جائیداد کی طرح اپنی مرضی سے تقسیم کر کے اس پر اپنی ریاستیں قائم کرنے کے خواہش مند سیاستدانوں کو شرم اور غیرت سے شاید پالا ہی نہیں پڑا۔ حصول اقتدار کی خاطر وہ معاشرے میں جس طرح تقسیم اور عصبیت کی نفرت بو رہے ہیں اس کے نتائج سے شاید وہ اگاہ نہیں۔ بہالپور کے حقوق کے پاسدار درانی صاحب نے اپنے دور اقتدار میں وہاںسے محرومیوں کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ۔ اگر نہیں کی تو وہ اس کے ذمہ دار اور مجرم ہیں۔ ایک مجرم کو کیسے حق حاصل ہے کہ وہ مدعی کی طرف سے مقدمہ لڑے ۔ وہ مدعی کی طرف سے مقدمہ نہیں لڑے گا بلکہ اپنے آپ کو بچانے اور اپنے مفاد کیلئے دروغ گوئی اور دھوکا دہی کا مرتکب ہو گا۔ وہ کبھی بھی حقیقی سچا راہنما نہیں ہوسکتا۔ جنوبی پنجاب ، سرائیکی وسیب جیسے نعرے بھی وہ سیاستدان لگا رہے ہیں جن کو قومی یا صوبائی لوٹ مار میں حصہ نہیں مل پایا۔ ان کے تشنہ لب تقسیم میں اپنی خواہشات کی تکمیل کو دیکھتے ہیں۔ شاید کہ اس طرح انہیں اقتدار کے سنگھاسن تک رسائی حاصل ہو جائے۔ وہ بھی اقتدار کے نشے کاذائقہ چکھ پائیں۔ہزارہ صوبہ ہو یا پوٹھوار سب تقسیم کے نعرے لگانے والے انہی اقتدار کے بھوکوں کا ٹولہ ہیں جنہیں ابھی تک اقتدار واختیار تک رسائی کی یہی صورت نظر آتی ہے۔ اگر ان کے اعمال پر نظردوڑائی جائے تو صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں ایسا کوئی بھی نہیں جسے معاشرے فلاح سے کوئی سروکار ہو۔ ان تحریکوں کا سوائے تقسیم کے کیا نعرہ ہے۔ ان کے منشور کیا ہیں۔ ان میں معاشرے کیلئے ان علاقوں کی ترقی کیلئے کیا سوچ ہے۔ کچھ بھی نہیں خالی دامن ہیں ۔ ان سے پوچھا تو جائے کہ وہ نئے صوبوں کے بارے میں کیا خاکہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی تعمیر وترقی کیلئے ان کے پاس کیا لائحہ عمل ہے۔ وہ جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب اور ہزارہ وپوٹھوار کے عوام کی محرومیاں کس طرح دور کریں گے۔ ان کے پاس الہ دین کا کون سا چراغ ہے جس  سے وہ نئے صوبوں کو جنت سماں بنا دیں گے۔صنعت تجارت حرفت سب کچھ اچانک ترقی یافتہ ہو جائے گا۔تعلیم صحت امن و روزگار کی گارنٹی ہو گی۔انصافمساوی اور سب کیلئے دہلیز پر ہو گا ۔ وہاں جاگیردار اور مزارعہ برابری کی سطح پر ہونگے۔ کیا گارنٹی ہے کہ نعروں کی بجائے حقیقی رفاعی وجمہوری اقدار ان ہاتھوں سے پروان چڑھے گی جن ہاتھوں نے اس کا گلا نصف صدی سے گھونٹ رکھا ہے ۔عوام راہنمائوں کی باتوں پر یقین کرتے اور ان ہی کے ہاتھوں ان کے یقین کا خون ہوتا ہے ۔مان لیتے ہیں باقی سب استبدادی واستحصالی ہیں آپ ہی عوام کے حقیقی نمائیندے اور انکے حقوق کے اصل ترجمان ہو۔ چلو ان جیسا نہیں بن سکتے تو کم ازکم اس سطح سے نیچے تو آ کر دکھائو ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ پیدل ہو جائو ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کے دکھ میں آپ لینڈ کروز کی بجائے صرف مہران پر ہی آجائو۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ان کے غم میں اپنے محل کو تیاگ دے کر جھکی نشین ہو جائو صرف اپنے محل سے کسی محلے میں آ جائو۔ سوٹ ٹائی کی بجائے پیوند لگے ٹاٹ والے کپڑے پہنو ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ صرف اپنے کپڑوں کی کلف چھوڑ دو۔ اپنے بچوں کو تعلیم نہ دو ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں ہمارے بچوں کے ساتھ تعلیم کیلئے داخل کرائو۔ اپنی صحت کا خیال نہ رکھو ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ آپ باہر ملک علاج اور پرائیویٹ علاج کی جگہ ہماری طرح سرکاری ہسپتال میں سرکاری ڈاکٹر سے علاج کرائو۔ اپنی زمینیں اور جائیدادیں بیچ دو اپنی صنعتوں کو آگ لگا دو ہم یہ کہتے ہیں کہ ان سے حاصل آمدن میں سے ٹیکس اور صدقات ادا کرو۔ عوام کے خادم اور ان کے نمائیندے کہلانے کی مجبوری ہے ورنہ آپ عوام کا نام لینا بھی اپنی تزہیک جانت

ے ہو۔ اس عوام کے نام پر جمہوریت کا یہ کھیل پیسے کے بل بوتے پر جو کھیلا جا رہا ہے اس میں عوام کا صرف نام استعمال ہوتا ہے ۔عوام کے ووٹ استعمال کیے جاتے ہیں ۔ عوام کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ ورنہ عوام کے مقدر میں جمہوریت کے دور میں بھی ذلالت کے سوا کیا ہے۔ سرکار ی ہسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹر غریب آدمی کو دیکھنا گوارا نہیں کرتا ۔ اس کیلئے دوا نہیں ۔ کوئی لیبارٹری نہیں جہاں سے وہ مفت ٹیسٹ کرا سکے ۔ اسے ضرورت کے وقت خون دستیاب نہیں ۔ اس کیلئے بستر نہیں ۔ اس کے لواحقین کیلئے انتظار گاہ نہیں ۔ مرنے پرایمبولینس دستیاب نہیں۔ تو پھر مفت علاج نعرہ کے سوا کیا ہے ۔ مفت تعلیم کو حقیقی روپ یہ ہے کہ کتابیں مارکیٹ میں قیمت پر دستیاب نہیں۔ بچوں کو سکول کے لیے کوئی کنوینس گاڑی دستیاب نہیں۔ سکولوں میں گرمی میں پنکھا ، سردی میں ہیٹر اور پینے کیلئے صاف پانی نہیں ۔باتھ روم نہیں۔ فرنیچر برائے نام ہے ۔ کلاس روم میں بچے ڈھونسے جاتے ہیں۔ دانش سکول کے بچے پاکستانی کیا باقی عوام کے بچے انڈیا سے آئے ہیں کہ ان کو کوئی سہولت دینا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔ کیا حکومت غریبوں کے بچوں اور بچیوں کو سکول کیلئے بس مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ واران ٹرانسپورٹ کی سینکڑوں بسیں کھڑے کھڑے گل سڑ رہی ہیں انہیں استعمال میں لا کر خواتین اور بچوں کیلئے مخصوص کر کے چلایا جاسکتا ہے۔کرنے کو تو بہت کیا جا سکتا ہے لیکن ملمع کار صرف خوشامد کرنا اور دھوکا دینا جانتے ہیں۔ حقیقی رفاعی اور بہبودی عوامل سے نعروں کا کوئی تعلق نہیں ۔انکا کسی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔تقسیم کے عمل سے یہ مزید بگڑ کر عوام کی حالت بہتر کی بجائے بدتر ہو جائے گی ۔ عوام کو تقسیم کی بجائے متحد رکھ کر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی سے اپ کے خواب توچکنہ چور ہو نگے پر عوام کا مفاد اسی میں ہے۔ عوام اپنے بھائیوں کے ساتھ متحد رہنا چاہتے ہیں انہیں جداگانہ سوچ سے نفرت ہے۔ اس سوچ کے حاملین سے نفرت ہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *