Home / Socio-political / کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہیے

کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہیے

                         

کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہیے

عباس ملک

 سیاست اور مداری دونوں کا پتہ نہیں چلتا کہ ان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ بیٹھے گا کھڑا ہی رہے گا یا پھر بھاگ کھڑا ہوگا۔قادری صاحب نے امریکہ کے کہنے اور زرداری صاحب کے بلانے پر کم از کم یہ تو اچھا کیا کہ الیکشن کمیشن میں اصطلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ جمہوریت کی بنیاد یہ عمل ہے۔ اس میں شخصیات کے اعمال کی چھانٹی کرنا جمہوریت کی اصل اساس ہے ۔ اس عمل پر جتنے سیاسی ، سماجی ،معاشرتی معاشی اثرات ہونگے لازمی امر ہے کہ اس سے نامناسب نام بھی بغیر سکرونٹی کے نکل کر جمہوریت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہونگے۔ ابن الوقتی نے جمہوریت کو اثیربنا رکھا ہے۔ سیاسی گھرانوں نے سیاسی جماعتوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایک بھائی ایک سیاسی جماعت کو سپورٹ تو دوسرا بھائی دوسرے نظریے کے ساتھ ہے۔ کہہ دیاجاتا ہے اپنی سوچ اور اپنا نظریہ ہے ۔جو بھائی آپس میں اتفاق واتحاد نہیں رکھ سکتے وہ قوم کو کیا متحد رکھیں گے ۔جو بھائی کو حق نہیں دے سکابھائی کا موقف نہیں سن سکا وہ عوام کاحق اور ان کا موقف کیا سنے گا۔ یہ سوچ اور نظریہ مختلف ادوار میں تبدیل ہوتا رہا ہے ۔ سیاسی خانوادوں نے ایوب خان کے مارشل لاء کا بھی ساتھ دیا انہی نے بھٹو کے روٹی کپڑا مکان کا علم بلند کیا ۔ ضیاالحق کو مرد مومن اور امیر المومنین بننے میں مدد دی۔ بینظیر اور نواز شریف کو بھی اپنا ناخدا مانا اور انہی نے مشرف کوسجدہ کر کے وردی سمیت صدر بنا کر آئین کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ْ۔ عدلیہ کو پائوں تلے روندنے کیلئے کمک فراہم کرنے اور چیف جسٹس کی نہ پر لبیک کہنے میں تامل کے بعد سر خم کردیا۔ یہی تھے جنہوں نے زرداری جیسے شخص کیلئے ایوان صدر کی دہلیز خود اس کے قدموں میں لا رکھی۔ انکے سیاسی کردار میں اور گرگٹ کے رنگ بدلنے میں زیادہ فرق نہیں ۔ خطرہ دیکھتے ہی اپنا رنگ بدل کر خود کو اسی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اس کو بچائو کی امید ہوتی ہے۔ اقتدار کو موروثی حق سمجھنے کی اس سیاسی فضا میں حقوق کو تذکر ہ ایک جملہ معترضہ ہے ۔حق صرف اقتدار اور ختیار والوں کیلئے استعمال کیا جانا چاہیے ۔جہاںسیاسی خانوادوں کے حقوق متاثر ہوں اور جہاں ان کیلئے کوئی رکاوٹ ہو ۔ حق صرف یہ ہے کہ ان سیاسی خانوادوں کے افراد کے سامنے کوئی کھڑا نہ ہو ۔ جو کریں جیسا کریں انہیں کوئی روک ٹوک نہ ہو ۔ قانون آئین معاشرہ اخلاقیا ت ہر چیز ان کے سامنے سرنگوں ہو جائے۔ رینٹل پاور کے ذمہ داران کو گرفتار کرنے کے حکم کاجواب تفتیشی افسر کو ہی جہاں فانی سے کوچ کرنا پڑا۔ انصاف تو تب میسر آ سکتا ہے جب سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں طبقاتی رکاوٹ حائل نہ ہو ۔ توقیر صادق ملک سے باہر چلا گیا ہاتھ نہیں ڈالا ۔ گرفتاری کیلئے جانے والوں نے وارنٹ گرفتاری ساتھ رکھنا ضروری نہیں جانا قانونی تقاضہ پورا ہونے کے سبب اسے گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ نہ وارنٹ ہو گا نہ گرفتاری ہو گی۔ پاکستان تو نہیں جس کو چاہے جہاں سے مرضی اٹھا لو۔ یہاں پر بڑا چور بڑ ے عہدے کا مالک اورحق پرست سانس گن رہا ہے کب قضا آئے اسے سر تسلیم خم کرنا پڑے ۔ اس سے حق پرستی میں تو کمی نہیں آئی اور نہ آئے گی۔ ایک دیوانہ جاتا ہے تو دوسرا ضرور آتا ہے ۔حق کی آواز کبھی دبائی نہیں جا سکتی ۔ فرعون نے بنی اسرائیل کے نومولود قتل کرا دئیے پھر بھی موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ وہ فرعونیت کی گود میں پل کر حق کی صدا کیلئے زندہ رہے ۔ صدا حق کا اللہ تعالیٰ محافظ ہے ۔ راہ حق کے مسافروں کیلئے رستہ دشوار بنا دیا گیا لیکن حق کی صدا ضرور بلند ہوگی۔ فرعونیت کا دور زیادہ طویل نہیں ہوتا۔تاریخ دیکھ لیں حق کی صدا کو دبانے والوں کا انجام اس میں دکھائی دے گا۔ اس وقت بھی 71کے کردار وں کی بقایات منہ چھپاتی پھر رہی ہیں۔ بدنام ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا کو یاد نہیں رہا کہ گالی بن کر تاریخ میں زندہ رہنے سے گمنامی کی موت بدرجہا بہتر ہے۔ سیاہ رات کا انجام آخر تو ہوگا۔ رات لمبی ہو سکتی ہے آخر سحر کو تو ہونا ہی ہے ۔رات جتنی سیاہ اور طویل ہوگی دن اتنا ہی اجلا اور سہنا ہوتا ہے ۔ امید ایسا بندھن ہے جس کے سہارے دکھوں کے سمندر بھی آسانی سے عبور ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسا سبب فرماتا ہے کہ کامیابی وکامرانی حق کو سامنے لا کھڑا کرتی ہے ۔حکمرانوں نے لاقانونیت کو وطیرہ بنا کر ملک میں قانون کی حکمرانی کو چیلنج کر رکھا ہے۔اس لاقانونیت سے ہی ان کیلئے حکمرانی کی راہ بھی کھلتی ہے۔ الیکشن کمیشن میرٹ پر سکرونٹی کر ے تو یہ آئین اور قانون کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہوں۔ قانون سے انہیں صرف یہ مقصود ہے کہ یہ ان کے خلاف بولنے لکھنے یا کھڑا ہونے کی کوشش کرنے والوں کو اپنے شکنجے میں لے کر انکی راہ کے روڑے صاف کرے ۔ قانون طبقہ اشرافیہ کے قبیلہ کے کسی فرد کے خلاف جب حرکت میں آتا ہے تو اس سے ان کا استحقاق مجروح ہوتا ہے ۔یہ سیاسی دشمنی کی بنیاد پر اور ان کو ان کی معاشرتی خدمات سے دور کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔ان کے جرائم سے پردہ اٹھانا ان کے قومی خدمات کو تسلیم نہ کرنے اور ان کی عوامی مقبولیت کو متاثر کرنے کی سازش ہوتی ہے ۔سابق وزیر اعظم کی پوری فیملی نے لوٹ سیل مچائی لیکن وہ آج بھی پوری ڈھیٹائی سے سیاسی منظر نامے پر موجود ہیں۔ اس پر وہ جنوبی پنجاب کے حقوق کے نام پر پنجاب میں انتشار پھیلانے کا فریضہ سر انجام دے کر خود کو اب وزیر اعظم پاکستان سے ایک لسانی گروہی اور علاقائی سطح پر لے آئے ہیں۔وہ قصر وزارت سے باہر لائے جانے کا بدلہ اس طرح لے رہے ہیں کہ وطن کے ہی ٹکڑے کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگے۔ پیش رو کی طرح آنے والے بھی دامن پر اتنا بڑ

ا دھبہ لے کر آئے کہ نہ دیکھے بھی دکھائی دیتا ہے ۔ کرپشن کے گھنائونے کرداروں کے باوجود بھی پارسائی کے ان دعویداروں کے چہرے سیاہ بختی کے بینر ہیں ۔ دعوی پھر یہی کہ یہ ان کے سیاسی کردار کو گھٹانے اور ان پر کیچڑ اچھال کر ان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی سعی ہے ۔ انصاف کی راہ اس قدر مفقود اور بے بس ہے کہ انصاف کے قدم تو بہت دور کی بات اس کی صدا بھی نہیں آتی ۔ جس نے انصاف کے قدموں کو سہارا دینے کی کوشش کی اس کو شخصی طور پر ہر طرح کے نقصانات سے دوچار کر دیا گیا۔ قبضہ لینڈمافیا کو سرکاری پروٹوکول اور سرکاری گارڈز مہیا ہے۔ ہائوسنگ سوسائٹی کا مالک ایف سی، اینٹی ٹیرسٹ پولیس گارڈ اور عام پولیس گارڈ کے ساتھ ذاتی گارڈز کا پورا سکواڈ لے کر اسلام آباد کو روند رہا ہے ۔ صدارتی محل اور قصر وزارت کے دروازے اس کیلئے کھلے ہیں۔ سیاست کے چوہدری اس کو بغل میں لے کر دوسروں کو خریدنے کیلئے چلتے ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ وہ قانون کی گرفت میں آ سکے ۔ خرید لینے والے انصاف بھی خرید رہے ہیں ، قانون بھی خرید رہے ہیں۔وہ مقتول کے ورثاء بھی خرید رہے ہیں۔ وہ غریب کی عزت  انا اور غیرت کا سودا بھی کر رہے ہیں۔ بہت ہو چکا اب وقت بدلنے والا ہے ۔تخت اچھالے جانے کا وقت قریب ہے ۔ہردفعہ اسلام آباد کی گلیاں خون آشامی سے نہیں بچ سکتی۔اب ضروری ہو گیا ہے کہ کرپشن کے ان سرخیلوں کو لگام دی جائے ۔ کرپشن کے اندھے کھیل کو اب ختم کرنے کیلئے انصاف کا ساتھ دیا جائے ۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے والے طبقہ اشرافیہ کے ایجنٹوں کو اب سرکاری چھتری کے استعمال سے روکا جائے ۔پولیس میں سیاسی عناصر کی پشت پناہی کرنے والے قانون کے محافظوں سے وردی واپس لی جائے۔ یہ آئین وقانون سب کیلئے ایک ہے تو پھر طبقہ اشرافیہ کا صرف پر استحقاق کیوں۔ غریب اور متوسط اس سے محروم کیوں۔ کیا پاکستان طبقہ اشرافیہ کیلئے جنت اور غریبوں کیلئے جہنم ہے ۔ یہ پاکستان ہے اس کا نام نہیں اس کا نظام بدلا جائے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *