Home / Socio-political / کوئی حساب سے مبرّا نہیں

کوئی حساب سے مبرّا نہیں

سمیع اللہ ملک

بندہ بشر اپنے اندرکائنات ہوتاہے ، ایک پوری دنیا بسائے ہوئے۔گزرے ہوئے روزوشب اوربیتے ہوئے ماہ وسال آپ کے چہرے پرنشان چھوڑجاتے ہیں۔ انسان زندگی میں عجیب عجیب سے کام کرتاہے۔ سکون کی تلاش میں سرگرداں انسان ایسی اشیامیں بھی پناہ ڈھونڈتاہے جو اسے بالآخر مارڈالتی ہیں۔ آپ فلم یاڈرامہ کیوں دیکھتے ہیں اس لیے ناں کہ کچھ دیرکے لیے اپنی اداسی کو بھولیں حالانکہ آپ جانتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے ،اداکاری ہے، ناٹک ہے اورنجانے کیاکیا۔ جوزف ہیلرکے شاہکار افسانہ آشوب شہر کی کچھ سطریں ہیں۔” بڑے شہرمیں راستہ گم کردینا بہت اذیت ناک ہوتاہے۔ اور آدی کا دماغ بھی ایک بڑا شہرہی جہاں آدمی بھٹکتا پھرتا ہے …. ساری زندگی….راستہ ڈھونڈتاہی ٹھوکریں کھاتاہے مگر راستہ نہیں ملتا۔ ملتا ہی نہیں….“دنیا ایک بہت بڑا شہرہے اور ہم سب اس شہر میں بھٹک رہے ہیں اجنبی ہیں۔ ہکسلے نے کہاتھا ”جدید دنیا اس قدرتیزی سے مادیت کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے کہ وہ دن دورنہیں جب مادی آسائشوں کی مٹی آدمی کا چہرہ بھی ڈھانپ لے گی اور جس دن روحانیت کی آخری رمق بھی ختم ہوگئی اس دن کرہ ارض کے تمام باسی پاگل ہوجائیں گے“۔

میری زندگی بھی بہت سارے رنگ لیے ہوئے ہے۔ پرائمری اسکول سے فٹ پاتھ پر قسمت کاحال بتانے والے نجومیوں کے ساتھ آشنائی، گھرسے بھاگ کر آنے والے لڑکوں کی دربدری اورکمپنی باغ کو اپنا مسکن بنانے والوں کی سنگت، رات کو قبرستانوں میں سونے اور دن کو مزدوری کرنے والوں کی زندگی ،جوانی میں خون تھوک تھوک کر رت جگے کاٹنے والے اور پھر دل کی دنیا نشتر وں کی زدمیں گزارنے والوں کی صحبت نے بہت کچھ سکھادیا۔ میں نے ایسے رنگا رنگ لوگ بھی دیکھے جوبظاہر چوراچکے اٹھائی گیر دکھائی دیتے لیکن اندرسے عالم فاضل، سفاک قاتل اور ان سفاک قاتلوں میں ولی ،ولیوں کے روپ میں لٹیرے، جوگی کاروپ دھارے اورجھوٹے نگوں کی انگشتریوں سے ہاتھوں کی انگلیاں سجائے ،ہر طرح کے رشتے ناطے، مجبوری کے ناتے توڑکراپنی دنیامیں مست اورپھر بہت سارے بابے ،میں ان سب میں رہاہوں۔ مجھ کمی کمین کو رب نے نجانے کیاکیا سکھایا نجانے کیا کیا عنائت کیا، میں قطعاً اس کے لطف وکرم کا حقدارنہیں تھا۔ بس کرم ہے ،میں نے کبھی نہیں سوچا میرے اس کام کا انجام کیا ہوگا۔ دنیا مجھے کیاکہے گی ۔جب ایک دن مقررہے جہاں ہر اک حاضر ہوگا اپنے رب کے حضور تو پھرکیا اندیشہ سودوزیاں اورکیا رسوائی کا ڈر۔

باباجی نے مجھے ایک دن کہا تھا، دیکھو انسان نے اپنے رب کو حاضر جانتے ہوئے ایک کام بہت اخلاص سے کیالیکن وہ بگڑگیا ،اس کاتوغم نہیں ہوتا کہ میں نے تو یہ سوچ کرکیاہی نہیں تھا اور اگر کوئی کام بدنیتی سے کیا اور وہ اچھے پھل پھول لے آیا تو بندہ سدا پریشان رہتاہے کہ میں نے تو بہت بدنیتی سے کیا تھا، بس یہ ہے اصول زندگی کا۔ اسی سے چمٹے رہنا چاہے کچھ ہوجائے۔ ٹالسٹائی نے کہاتھا ”میں کیا کروں؟ کہاں جاں ؟ کائنات دائمی اور لامحدود ہے ،میں یہاں لمحے بھرکو چمکنے کے بعد بجھنے والا ہوں ….“اور اب میں کچھ کرلوں۔ اس طرف سے زمین کھود کر ادھر نکل جاوٴں….اس طرف سے کھودکر واپس اس طرف نکل آوٴں اپنی موجودہ حالت سے نجات ممکن نہیں ہے۔ میرا یہ آغاز اور انجام کہاں کیوں اورکس کی مرضی سے طے کردیاگیاہے۔

جوگی کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبورنہیں کرتے،وہ صرف خواہش دریافت کرتے ہیں، کسی کو محل بنانے کی خواہش ہوتوکہتے ہیں بنالو، پھر وہ دوسرا پھیرالگاتے اورخواہش جاننا چاہتے ہیں۔ کسی بھی خواہش کا اظہارکیاجائے تووہ کامیابی اورخوش رہنے کی دعادیتے ہوئے چلے جاتے ہیں لیکن کوئی ان کا دامن تھام لے اور خود ہی چیخ کر کہے میری ساری خواہشات پوری ہوگئیں مگر میں اب بھی بے چین ہوں تو وہ اسے سکون کا راستہ دکھادیتے ہیں کہ سکون توصرف میرے رب کے ذکرمیں ہے۔ میں نجانے آپ سے کیا کہنا چاہتاہوں، شاید یہ کہ ہم سب صرف خود جینا چاہتے ہیں لیکن کسی کو جینے کا حق دینا نہیں چاہتے، یہی ہے میری زندگی کا تجربہ ،عزیزترین رشتے داربدترین استحصالی ثابت ہوتے ہیں۔ جب تک آپ ان کی ہدایات پر عمل کریں آپ بہت اچھے ہوتے ہیں وہ آپ کے گن گاتے ہیں اور جیسے ہی وہ اپنا حق وہ حق جو انہیں ان کا رب دیتاہے استعمال کرنا چاہیں آپ ان کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں،آپ صرف خود کو دیکھتے ہیں۔

آپ کے پاس ہر ایک کے لیے اپنے معیارات ہیں۔ آپ کا ہرپل نئی عینک لگالیتاہے کچھ دیر پہلے وہ جو عزیزترین تھا اب بدترین بن جاتاہے اس لئے کہ وہ آپ کی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔ انسان کٹھ پتلی نہیں ہوتا، وہ ایک جیتاجاگتا وجود ہوتاہے،اس کی کچھ خواہشات ہو تی ہیں جسے آپ نازونخرے سے پالتے ہیں،پھراسے خود اپنے ہاتھوں دفن کردیتے ہیں۔ زیادہ سفاک یہ رویہ ہوتاہے کہ آپ خود انہیں مارڈالتے ہیں اورکوئی ان کی زندگی میں آکر تھوڑے سے رنگ بھردے اور ان کے اداس چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرے اور وہ کامیاب ہوجائے تو آپ اسے دوبارہ مارڈالتے ہیں اورخود کو کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ہے اس لیے یہ کیا ہم نے۔مجھے اقرار ہے میں نے کسی کی بھی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔ جو ٹھیک سمجھا وہ کیا ،کسی کی پرواہ نہیں کی پہلے اپنے قصیدے سنے اور پھرگالیاں لیکن میں باز نہیں آیا میں باز آبھی نہیں سکتا ۔انسانوں کو رب نے جو حقوق دئیے ہیں وہ کیسے سلب کرسکتے ہیں آپ ۔میں ان کے حق میں نغمہ سرا ہوتاہوں اور گالیاں کھاتا اورمسکراتاہوں۔

اگرآپ سمجھتے ہیں کہ یہ اقتداراللہ کی امانت ہے اوراس میں بیتے ہوئے ایک ایک لمحے کاحساب دیناہے توپھراس کانمونہ بھی توپیش کرناہوگا۔خوشنماتقاریر کے غازی بن کرکتنی دیرعوام کودھوکہ دیں گے،دراصل آپ توخودکودھوکہ دے رہے ہیں۔ہمیں توہروقت احتساب کیلئے تیاررہناہوگا۔کیایہ جذباتی جملہ کہہ کرجان چھوٹ جائے گی کہ بی بی کی قبرکاٹرائل نہیں ہونے دیں گے جب کہ ہرکوئی جانتاہے کہ کسی بھی فردکے دنیامیں نہ رہنے سے اس کے خلاف دائرتمام مقدمات کسی اورعدالت میں منتقل ہوجاتے ہیں جہاں مکمل انصاف ہوتاہے ۔حساب توآپ سے مانگاجارہاہے کہ سوئٹزرلینڈ کے صرف ایک بینک اکاوٴنٹ میں ۶کروڑڈالرکہاں سے آئے؟دنیاکے دوسرے بینکوں میں اورخفیہ اکاوٴنٹس کی بابت توسوال بعدمیں آئیں گے۔آپ نے توسرے محل کی ملکیت سے بھی انکارکردیاتھالیکن جب اس کی فروخت کاوقت آیاتوحق ملکیت کیلئے برطانوی عدالت میں جاپہنچے۔یہ توہم سب جانتے ہیں کہ یہاں سے خالی ہاتھ جاناہے ۔آپ نہ توفرعون سے زیادہ طاقتورہیں اورنہ ہی شدادسے زیادہ دنیاوی خزانوں کے مالک۔آپ تواس قدرخوفزدہ ہیں کہ اپنے ان آقاوٴں کواپنی مددکیلئے بلارہے ہیں جواس خطے سے نکلنے کیلئے خودمددکے طالب ہیں۔کیا آپ اپنے کبیروخبیررب کی یہ دل دہلادینے والے خبرکوجھٹلانے کی ہمت رکھتے ہیں جس نے واضح طوربتادیاہے کہ:

جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی، اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی، اور انسان کہے گا کہ یہ اِس کو کیا ہو رہا ہے، اس روز وہ اپنے اوپر گزرے ہوئے حالات بیان کرے گی، کیونکہ تیرے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں۔پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا(سورة الزلزال۸۔۱)

شاید یہی ہے میرا سب سے بڑا جرم۔ لیکن یہ میں کرتارہوں گا۔ چاہے آپ کو کتنابھی ناگوارہو۔ آپ ضرور جئیں۔ سدا جئیں لیکن اوروں کو بھی جینے دیں۔کسی کو بھی اپنی خواہشات کی سولی پر مت چڑھائیں۔ آپ نے کسی کی خوشیاں چھینیں تو آپ بھی خوش نہیں رہیں گے۔ یہ دنیا اسی طرح غموں کے سمندرمیں غوطے کھاتی رہے گی اور آخر ڈوب جائے گی۔ اپنے دل کے چراغ کو روشن رکھئے، کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ادھوری سچائی پورے جھوٹ سے زیادہ تباہ کن ہوتی ہے۔ ریت پر قلعے تعمیر نہیں کیے جاسکتے۔ سچ کو چھپایانہیں جاسکتا وہ اپنا راستہ خود نکالتاہے چاہے کچھ دیرکے لیے وہ پسپا ہوجائے لیکن وہ ہمیشہ سرخرو رہتاہے۔ آپ اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ بعض اوقات خون کی بوندوں سے الفاظ مرتب ہوتے ہیں اورخون توویسے ہی سرچڑھ کربولتاہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ اللہ دلوں ،کانوں اورآنکھوں پربھاری پردے ڈال کرمہرلگادے اورسننے ودیکھنے کی صلاحیت سلب کردے ۔

یاد رکھیے یہاں کوئی دائم آباد تھا نہ رہے گا ۔ سب چلے جائیں گے پھر اک دن جمع کیے جائیں گے کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔وہاں حساب ہوگا،بڑاکڑاحساب ہوگا۔ملک سے لوٹی ہوئی دولت جواللہ کی طرف سے اس غریب اوربیکس عوام کی امانت تھی،اس کاحساب دیناہوگا۔آخراقتدارکے شاہانہ ٹھاٹ بھاٹھ کابھی توحساب دیناہوگا۔لاکھوں جانوں کی قربانی دیکریہ ملک اس وعدے پرلیاتھاکہ یہاں صرف تیراقانون چلے گامیں توبس تیراخلیفہ ہوں۔خودکودھوکہ دیتے ہوئے ۶۴سال بیت گئے ،منزل قریب ہوتے ہوئے بھی دورہوتی چلی گئی ،زمانے بھرکی رسوائیوں میں غرق ہوگئے ہیں لیکن پھربھی اس کی غلامی کرنے کوتیارنہیں۔ تیاری کرلیں کہ کوئی حساب سے مبرانہیں۔

ریاکے دورمیں سچ بول تو رہے ہومگر

یہ وصف ہی نہ کہیں احتساب میں آئے

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. بہت خوبصورت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *