Home / Socio-political / ڈرون کا زخم ڈرون سے مرہم

ڈرون کا زخم ڈرون سے مرہم

          پاکستان کا قبائلی علاقہ  بالخصو ص وہ علاقے جو  افغانستان سےمتصل ہیں  انھیں دنیا کے کسی  طرح کے مصائب اور آلام سے ڈر نہیں لگتا ، انھیں صرف ایک چیز سے ڈر  لگتا ہے جسے ‘ڈرون ’ کہتے ہیں۔ڈرون امریکہ کا وہ خفیہ سرگرمیوں اور خفیہ مقامات پر حملہ کرنے والا جہاز ہے جو کسی بھی وقت ان علاقے  کے باشندوں پر موت بن کر گھومتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی بے قصوروں کی جان لے  لیتا ہے ۔ اس طرح کے حملے  پاکستان کی مرضی سے  نہیں ہوتے ( لیکن یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کون حکمراں اپنے تخت و تاج کے کے لیے امریکہ سے کس طرح کا معاہدہ کیے  بیٹھا ہے ، یہ بھی معلوم نہیں ۔)بلکہ امرٍیکہ کو جب بھی کوئی خفیہ ذرائع سے معلوم ہوت اہے کہ اس علاقے میں دہشت گرد ہو سکتے ہیں تو وہ  بغیر کسی تامل کے اس علاقے میں ڈرون کو بھیج دیتا ہے ۔یہ ڈرون جس کی آنکھ ہے نہ کان ، جس طرح کا پیغام اس میں فیڈ  کیا جاتا ہے وہ اسی کے حکم کو غلام ہوتا ہے ۔ لہٰذا بغیر  کسی پس و پیش کے وہ ان علاقوں پر بمباری کر کے واپس آجاتا ہے ۔ اس کے بعد پاکستانی حکام اپنے شہریوں کی چیخ و پکار سن کر کچھ  ہمدردی کے بول بولتا ہے جس سے نہ خود حکمراں کو دلی تشفی ہوتی ہے اور نہ ہی شہریوں کو دلاسہ ملتا ہے ۔حالانکہ کئی دفعہ  پاکستانی حکام اور فو ج کی جانب سے اونچی آواز میں احتجاج   کی باز گشت سنائی دیتی ہے لیکن آج کل اُن کا یہ سُر بھی مدھم ہوگیا ہے ۔کسی بھی ملک میں حکمران کی یہ عاجزی اب تک دنیا  نے نہیں دیکھی ہے جو عاجزی پاکستان  کے حکمرانوں میں نظر آتی ہے۔اپنا ملک ، اپنی سرحد ، اپنی رعایا سب کچھ اپنا ہے مگر اس بھی دھاوا بولنے والا کوئی اور ہے ۔ کہنے کو یہ حملہ ان دہشت گردوں پر کیا جارہا ہے جو پاکستان میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور دنیا کے امن و امان کے لیے خطرہ ہیں ۔حالانکہ پاکستان ہمیشہ جنوبی ایشیا کے ممالک سے یہ کہتا رہا ہے کہ ہمارے یہاں اب دہشت گرد نہیں ہیں ۔ لیکن امریکہ کو اسی کی خفیہ ایجنسیاں ان دہشت گردوں کے ٹھکانے بتانے میں مصروف ہیں ۔ ایک طرف پاکستان امریکی افواج کی مدد کرتے ہیں اور دوسری جانب  حکمراں ان حملوں کی مذمت تو نہیں شکایت کرتے ہیں ۔پاکستان کی یہ مجبوری یا یہ عاجزی سمجھ سے باہر ہے ۔ کیونکہ اگر حکام کی جانب سے سخت لفظوں میں  احتجا ج  ہوتا تو لوگوں کی جانوں کی یہ ارزانی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ابھی تازہ ترین  حملہ دو روز قبل ہی ہوا ہے۔ اخبارات کی رپورٹ کے مطابق’ شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں کے میزائل حملے میں ہلاک افراد کی تعداد21ہوگئی جن میں 3خواتین اور5بچے شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق حملہ شمالی وزیرستان کی تحصیل اسپین وام میں کیا گیا۔ جہاں میرعلی ٹل روڈ پر حسن خیل کے علاقے میں قائم ایک گھر کو چار میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔حملے میں 21افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔اس سے پہلے 17 مارچ 2011 کو میران شاہ کے علاقے دتہ خیل میں قبائلی جرگے پر جاسوس طیاروں سے متعدد میزائل برسائے گئے تھے جس کے نتیجے میں 45 افراد ہلاک ہوئے تھے، رواں سال شمالی وزیرستان میں یہ بیسواں ڈرون حملہ ہے۔’اردو ٹائمز ، نیو یارک کی رپورٹ کے مطابق یہ ’حالیہ میزائل حملہ ایسے وقت ہوا جب امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن دوروز قبل ہی پاکستان کے دورے پر تھے۔ انہوں نے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی پرالزام عائد کیاتھا کہ اس کے روابط شمالی وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک سے ہیں۔ ان کے دورے کے اختتام پرآئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق جنرل کیانی نے ایڈمرل مولن کے ساتھ ملاقات میں پاکستان کے ڈرون حملوں کے موقف کو دہرایا اور کہا کہ یہ حملے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میزائل حملوں کے باعث عوامی رائے فوجی کارروائی کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔‘ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔اندرونئ معاملہ یہ ہے کہ جب بھی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں تلخٰ آتی ہے تب تب ایسے واقعات رونام ہوتے ہیں ۔ان دنوں یہ خبر سر گرم ہے کہ ابھی امریکہ اور پاکستان کے مابین معاملات کچھ اچھے نہیں ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ  حملہ اسی کا نتیجہ ہو۔

          ڈرون  کے پیچھے کی ایک کہانی اور ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ بہت دنوں سے پاکستان کا امریکہی سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ چونکہ اس کا علاقہ افغانستان سے ملتا ہے اور دہشت گردوں کی بڑی تعداد یہاں سے پاکستان آتی اور جاتی ہے ۔ ان پہاڑی سلسلوں اور دشوار گزار راستوں پر فوج کے ذریعے مکمل نگرانی مشکل ہے اس لیے امریکہ پاکستان کو ڈرون جہاز دے تاکہ  دہشت گردوں پر نگرانی اور حملے  کیے جاسکیں ۔ اس مطالبے میں خود پاکستانی حکام نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی موجودگی اور ان کی شدت کو قبول کیا ہے ۔ ڈرون کی حصولیابی کے لیے جس قدر بھی ممکن ہو سکتا تھا پاکستان نے ان دہشت گردوں کے خطرناک عزائم کو پیش کیا ۔جس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوا کہ امریکی حکام نے پاکستان پر نظریں گڑا دیں اور دوسرا نتیجہ یہ سامنے نکل کر آیا ہے کہ ان حالات میں پاکستان کو ڈرون جہاز دئے جاسکتے ہیں ۔ تو گویا ڈرون سے ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ اب کسی اور رخ کے سفر پر ہے ۔ ایک طرف امریکہ ڈرون دینے کو تیار ہےتو دوسری طرف اسی ڈرون سے پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کا بھی ذمہ دار ہے ۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈرون سے زخم بھی دیا جا رہا ہے اور ڈرون سے اس زخم کو مندمل کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔

          لیکن جس طرح کے ڈرون پاکستان کو ملیں گے شاید اس سے اس کےخوابوں کی تعبیر  نہ ہوسکے کیونکہ امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال ہی میں امریکہ پاکستان کو نگرانی کرنے والے بغیر پائلٹ کے جہاز یعنی ڈرون فراہم کرے گا تاہم ہتھیاروں سے لیس ڈرون فراہم نہیں کیے جائیں گے۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا تھا امریکہ پاکستان کو بارہ ’شیڈو ڈرونز‘ فراہم کرے گا جس سے شدت پسندوں کی نقل و حرکت کرنے میں مدد ملے گی۔لیکن پاکستان اب غور کر رہا ہے کہ کیا یہ شیڈو ڈرونز ان کی ضروریات کے مطابق ہیں یا نہیں۔ شیڈو ڈرون ہتھیاروں سے لیس پریڈیٹر اور ریپر سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ گیارہ فٹ لمبے اور پروں کی لمبائی چودہ فٹ ہوتی ہے۔ اس میں سینسرّ اور کیمرہ نصب ہوتا ہے جو ویڈیو اس کو کنٹرول کرنے والوں کے پاس بھیجتا رہتا ہے۔حالانکہ پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ ہتھیاروں سے لیس ڈرونز پاکستان کو فراہم کیے جائیں تاکہ پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف پاکستان خود کارروائی کر سکے۔تاہم امریکی فوجی افسر نے اس بارے میں کہا کہ امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ ہتھیاروں سے لیس ڈرونز کسی اور ملک کو فراہم نہ کیے جائیں۔ڈرون کی زحمتوں کو برداشت کرنے کے بعد بھی پاکستان کو وہ چیز نہیں ملنے کی امید ہے جس کے لیے کئی حکمرانوں نے غلط بیانیاں بھی کیں ۔ صرف یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ صرف زخم پر مرہم رکھنے کی ترکیب ہے۔

***

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *