چین اور امریکہ کے درمیان خفیہ روابط
انعام بٹ
امریکہ اور چین کے درمیان خفیہ روابط کا آغاز بذریعہ پاکستانی صدر یحییٰ خان ہوا۔یکم اگست۱۹۶۹ء پاکستان کے دل یعنی لاہور میں ہونے والا تاریخی رابطہ امریکہ کے صدر رچرڈ نکس اور پاکستان کے صدر یحییٰ خان کے مابین تھا۔اس رابطہ سے ہی بات مزید آگے بڑہی اور پھر بڑہتی ہی گئی۔صدرِ پاکستان یحییٰ خان نے ذاتی طور پر”چینی رابطہ“کے عنوان سے ۴۹خفیہ دستاویزات سنبھالی ہوئی تھیں جو کہ پندرہ اکتوبر۱۹۶۹ء سے لے کر۷/اگست ۱۹۷۱ء تک کے عرصے پر محیط تھیں۔ان میں صدر نکسن اور ڈاکٹر ہنری کسنجر کے وزیراعظم ژواین لائی کے نام بھجوائے اور ان سے وصول کئے جانے والے وہ پیغامات شامل ہیں جو انہوں نے صدر یحییٰ خان کی وساطت سے ارسال کئے تھے۔طریق کار یہ تھا کہ وائٹ ہاؤس کے پیغامات سادہ،کورے کاغذ پر لکھوا کر یا ٹائپ کرکے براہ راست پاکستان کے سفیر آغا ہلالی کے ہاتھ میں دئیے جاتے پھر وہ ان تحریری یا زبانی پیغامات کو اپنے ہاتھ سے دوسرے کاغذ پر نقل کرکے بذریعہ سفارتی ڈاک معتمد امور خارجہ اسلام آباد کو روانہ کر دیتے تاکہ وہ اسے فوراًصدر یحییٰ خان کو…وہ جہاں کہیں بھی ہوں…پہنچا دیں۔چینی ردِعمل اسلام آباد میں متعین چینی سفیر خود صدر یحییٰ کے گوش گذار کرتا۔وہ اسے تحریری شکل میں اپنے ملٹری سیکریٹری کو دیتے تاکہ وہ بذریعہ دفتر امور خارجہ اسے سفیر آغا ہلالی کے واسطے سے وائٹ ہاؤس/واشنگٹن ارسال کردے۔آغا ہلالی وہ ہیں جو کہ سویڈن ،سویت یونین،بھارت میں خدمات بجالانے کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے ۔کُچھ پیغامات مثلاً رسیدگی کی اطلاع وغیرہ،وزارت خارجہ کے خفیہ کوڈ سے ارسال ہوتیں۔امریکہ اور چین کی جانب سے آنے جانے والے پیغامات صدر یحییٰ کی نظر سے گزرتے رہے اور صدریحییٰ ان پیغامات کو ذاتی طور پر سنبھالتے رہے مگر صدر یحییٰ نے ان روابط کا پردہ دسمبر۱۹۷۱ء کے سانحہ مشرقی پاکستان کے نتیجے میں معزول کر دئیے جانے کے بعد کیوں نہیں اُٹھایا؟۱۹۸۰ میں وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ، اپنی زندگی میں انہوں نے ان اہم ترین دستاویزات کا ذکر نہیں کیا مگر ان کی حفاظت ضرور کرتے رہے۔خیر پاکستان کے ذریعہ چین اور امریکہ میں اہم رابطوں کا سلسلہ تو صدر یحییٰ کے دورِ حکومت میں شروع ہوا تھا اور پاکستان کے اہم عہدیداروں کی وساطت سے امریکی اعلیٰ عہدیدداروں کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں اور اہم امور پر اہم فیصلے بھی ہوئے۔صدر یحییٰ کے ذریعہ امریکی اور چینی پیغامات کے ۴۹ خفیہ دستاویزات تو منظر عام پر آچکی ہیں جو ہر خاص وعام کی پہنچ میں ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی امریکہ اور چین کے درمیان خفیہ روابط کا سلسلہ جاری ہے؟اگر ایسا ہے تو کیا یہ دنیا کے امن کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا یا نقصان دہ؟ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتاہے کہ کہیں امریکہ اور چین کے رابطوں سے آنیوالے وقت میں امن کے خلاف اقدامات سرزد نہ ہوں کیونکہ جب دو بڑی طاقتیں ملتی ہیں تو اُن میں سے ایک آہستہ آہستہ برباد ہونا شروع ہو جاتی ہے کیونکہ سُپر پاور بننے کا شوق تو ہر کسی کو ہوتا ہے خواہ وہ جنگی میدان ہو یا طاقت کا مقابلہ۔امریکہ خود کو سُپر پاور کہتا ہے مگر چین امریکہ کو سُپر پاور ہر گز نہیں مانتا،ایسا کیوں ہے؟امریکہ سمیت کئی ممالک افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے سے طالبان کو ختم کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔جبکہ امن کی تباہی میں حصہ لینے والے ممالک اپنا پیسہ،فوجی،اسلحہ اور عزت گنوا چکے ہیں۔مگر چائنہ جوکہ دنیا کی ایک بڑی فوج کی حثییت سے بھی جانا جاتا ہے اس قسم کے معاملات میں مداخلت کرنا پسند نہیں کرتا۔یا تو ایسا ہے کہ چائنا امن چاہتا ہے یا پھر چائنا خود کو طاقتور بنانے کی خاطر کسی قسم کے جنگی معامالات میں مداخلت کرنا پسند نہیں کرتا۔خیر یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا کہ اندر کھاتے میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔دُعا یہ کرنی چاہئے کہ ایشیاء میں امن و امان کی صورتحال برقرار رہے جِسے امریکہ خراب کرنے کی بھرپورکوشش کر رہا ہے۔