Home / Socio-political / پرلے درجے کابزدل

پرلے درجے کابزدل

پرلے درجے کابزدل

سمیع اللہ ملک

جب جنگل میں ایک شہنشاہ کے طورپرحکمرانی کرنے‘اپنی زوردارگرج سے چارسو ارتعاش پیداکرنے اورچوکڑیاں بھرتے ہرنوں کاشکار کرنے والاشیربوڑھا ہوجاتاہے‘ فولادی میخوں جیسے اس کے لمبے نوکیلے دانت جھڑجاتے ہیں‘اس کاپیٹ لٹک کرزمین کوچھونے لگتاہے‘پیلاہٹ اس کی بجھی بجھی سی آنکھوں کے گوشوں میں جم سی جاتی ہے۔ اس کے پوپلے منہ سے بدبودارمادہ رال کی شکل میں بہنے لگتاہے‘اس کی اکڑی ہوئی دم پچھلی دونوں ٹانگوں کے درمیان دب کر رہ جاتی ہے توایک دن وہ جنگل کے دلدلی حصے میں دھڑام سے گر جاتا ہے۔ وہ اپنے بیمار نڈھال بوڑھے جسم کی تمام ترتوانائیاں سمیٹ کراٹھنے کی کوشش کرتاہے لیکن ڈگمگاکررہ جاتاہے۔ اس کی گردن ایک طرف کولڑھک جاتی ہے او روہ لاچار سا ہوکر اپنے اعضاء ڈھیلے چھوڑدیتاہے۔ اس کی جان یکایک نہیں نکل جاتی بلکہ اسے جانکنی کی طویل اذیت سے گزرناپڑتاہے۔

ایسے میں اکثر اسے بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں۔ جب وہ جوان‘طرار اور طرحدار تھا۔ جب ساراجنگل اس کی دہشت سے تھراجاتاتھا‘جب وہ اپنی کچھار سے نکلتاتھا توچرند وپرند پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی ۔جب وہ زقندیں بھرتاہوا اپنے شکارپرجھپٹتا اور آن واحد میں اپنے دانت اس کی گردن میں گاڑدیتاتھا‘جب اس کے تیز پنجے ہاتھی کی موٹی کھال کوبھی ادھیڑ کررکھ دیتے تھے۔ بوڑھامریل جان بہ لب شیراپنی سوچوں میں مگن بصد مشکل اپنی آنکھیں کھولتاہے تواسے اپنے اردگرد چھوٹے چھوٹے ہرن‘گیدڑ‘ لومڑیاں حتّٰی کہ خرگوش بھی حلقہ بنائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ وہ سب ہنس رہے ہوتے ہیں ۔ٹھٹھہ مخول کررہے ہوتے ہیں ۔کوئی چوہا کسی بل سے نکل کر اس کی پیٹھ پرسوارہوجاتاہے اور رقص کرنے لگتا ہے۔ شیراپنے دائیں اورپھربائیں پنجے کوحرکت میں لاکر چوہے کوپکڑناچاہتاہے لیکن فالج زدہ بازو حرکت میں نہیں آتے۔ اس کے دل میں یہ احساس انگڑائی لیتاہے کہ میں شیرہوں، جنگل کابادشاہ ہوں‘یہ سب میری رعایاہیں۔ کیاہواجومیں بوڑھاہوگیاہوں‘ کیاہوا جومیرے دانت جھڑگئے ہیں‘ کیاہواجومیں اپنے ہاتھ پاؤں نہیں ہلاسکتا۔ اب بھی بادشاہ ہوں۔ اس احساس کے انگڑائی لیتے ہی وہ منہ کھول کر پوری طاقت سے گرجناچاہتاہے لیکن نہ جبڑا پوری طرح کھلتاہے‘ نہ پھیپھڑے پوری طرح پھولتے ہیں۔ گرج بلی کی میاؤں بن کرحلق کے آس پاس تحلیل ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ حشرات الارض اورچھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے بھی نکل آتے اور بادشاہ سلامت کے جسدِ بیمار سے لپٹ جاتے ہیں۔ جاں بہ لب شیر نہ اپنے آپ کوکڑی دھوپ سے بچانے کے لئے کسی سایہ دار درخت کی پناہ لے سکتا ہے نہ تیزطوفانی بارش سے بچنے کے لئے کسی غار کارخ کرسکتاہے۔ پھر عافیت کاوہ لمحہ آتاہے جب جنگل کے بادشاہ کی سانسیں تھم جاتی ہیں۔وہ مرجاتاہے۔بھیڑیے ‘لگڑبھگڑ ‘گیدڑ اور گدھ اس کی لاش نوچنے لگتے ہیں اور شام تک متعفن ہڈیوں کے ڈھیرکے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔

شیر‘جنگل کابادشاہ ہونے کے باوجود ایک جانور‘ایک درندہ ہی ہوتاہے۔ اس کے پاس عقل‘فہم ‘ادراک‘سمجھ بوجھ اور تجزیے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔وہ خیروشر کی تمیزبھی نہیں رکھتا۔ وہ جمہوریت اورآمریت کے فرق کوبھی نہیں سمجھتا۔وہ اس جذبہ واحساس سے بھی عاری ہوتاہے کہ جنگل کی مخلوق اس کے بارے میں کیاخیال کرتی ہے۔ اسے کبھی یہ اندازہ نہیں ہو پاتاکہ کب لوگ اس سے محبت کررہے تھے اور کب پھولوں جیسی لطافت رکھنے والی یہ محبت ‘نفرتوں کے الاؤ میں تبدیل ہوگئی۔

لیکن انسان ‘چاہے وہ درندہ صفت ہی کیوں نہ ہو‘چاہے اس میں حیوانیت کے تمام اجزاء ہی کیوں نہ بھرجائیں‘وہ بہرحال انسان ہوتاہے۔ وہ فہم‘عقل ‘ادراک ‘سمجھ بوجھ اور تجزیے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس کے سامنے ماضی کے تجربات کاایک لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے۔ جسے بنیادبناکر وہ اپنی منزل اوراپنے راستے کاتعین کرسکتاہے۔ وہ عزت اورذلت کے فرق سے شناساہوتاہے۔ وہ زندگی‘موت اور اس کے بعدکی زندگی کے تقاضوں سے آگاہ ہوتاہے۔اسے معلوم ہوتاہے کہ بدنامی اورنیک نامی کیاہوتی ہیں۔ وہ جانتاہے کہ تذلیل اور تعظیم کسے کہتے ہیں۔ وہ جانتاہے کہ زندگی‘کبھی جان اورکبھی تسلیم جان کانام ہے۔اسے علم ہوتاہے کہ عوام کی نگاہوں میں گرجانے کے بعد کوئی بڑے سے بڑا عہدہ بھی تکریم نہیں دے سکتا۔ ہرانسان کے اندرایک میزان موجودہوتی ہے جسے ضمیربھی کہتے ہیں۔ یہ ضمیربڑی بے لاگ گواہی دیتاہے۔ ہاں کبھی کبھی اس کوزنگ بھی لگ جاتاہے۔ اس کی گواہی میں کھوٹ آجاتاہے اور میزان کاتوازن برقرارنہیں رہتا۔ انسان کے حواس سلامت ہوں تواسے ادراک ہوتاہے کہ کون سافیصلہ کرناہے اورتاریخ کی کتاب میں کس حوالے کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔

 شیرکومعذور اور مفلوج ہونے اوردھڑام سے زمین پر گرجانے کے باوجود اندازہ نہیں ہوتاکہ اس پرکیاگزررہی ہے یہاں تک کہ اس کی بادشاہت ‘مکھیوں‘ چیونٹیوں اور چوہوں کارزق ہوجاتی ہے لیکن انسان کے حواس خمسہ مقفل نہ ہوجائیں تووہ اچھی طرح جان جاتاہے کہ تذلیل وتحقیر کی آخری حد کہاں سے شروع اورکہاںپرختم ہوتی ہے۔ اس کے سامنے سارے راستے ہاتھ کی لکیروں کی طرح کھلے ہوتے ہیں۔بدلتے وقت کے تیوروں کوجانچنے کے لئے اس کے پاس بیسیوں پیمانے ہوتے ہیں۔ اگروہ خود فریبی کے مرض میں مبتلانہ ہوتوساراعالم اس کے لئے آئینہ خانہ بن جاتاہے۔وہ ہردیوار ‘ہر دریچے میں جھانک کراپنے چہرے کے حقیقی خدوخال دیکھ سکتاہے۔ وہ فیصلہ کرسکتاہے کہ میری آبرو لوگوں کی گردنوں پرمسلط رہنے میں ہے یاترکہ توشہ سمیٹ کررخصت ہوجانے میں ‘اس کے باوجود اگراس کے حواسِ خمسہ اس کاساتھ نہیں دیتے اوروہ ایک صائب فیصلے پرنہیں پہنچتا‘ تو جان جائیے کہ وہ اللہ کی پکڑمیں ہے جس کاارشاد ہے کہ وہ نامراد لوگوں کے دلوں پر مہریں لگادیتا‘ان کی سماعتیں چھین لیتااوران کی آنکھوں پرپٹیاں باندھ دیتاہے۔

کوئی آمر‘شیر نہیں ہوتا۔ وہ پرلے درجے کابزدل ہوتاہے۔ جوخم ٹھونک کرمیدان میں آنے اورعوام سے سندِ قبولیت حاصل کرنے کے بجائے دیواریں پھلانگ کراقتدار پر قبضہ جماتا اوربندوق کے زورپرجمارہتاہے۔ آمریت کے لمبے نوکیلے فولادی میخوں جیسے دانتوں سے وہ عوام کوادھیڑتااورنوچتارہتاہے۔ اس کے آس پاس بیٹھے‘بچی کھچی ہڈیاں چچوڑنے والے اس کی درندگی اورآدم خوری کے قصیدے گاتے رہتے ہیں۔خلقِ خدا کے سینے میں نفرتوں کاالاؤبھڑکتارہتاہے۔ ان کی دعائیں عرشِ معلی کے گردوپیش منڈلاتی رہتی ہیں اور پھرایک دن آمردھڑام سے گرتاہے اور حشرات الارض اس کاجسدِ ناسور چاٹنے لگتے ہیں۔

حیرت اس بات پرہے کہ شیر نامی درندہ توعقل وشعور سے عاری ہونے کے سبب عبرتناک انجام سے دوچارہوتاہے لیکن دل ودماغ اورسمجھ بوجھ رکھنے والے آمروں کی سوچ  پر پتھر کیوں پڑجاتے ہیں کہ دھڑام سے گرتے وقت انہیں کچھ خبرہی نہیں ہوتی؟میں نے ۲۳مارچ کے اپنے کالم’’مہلت کی مدت ختم‘‘میںانتباہ تو کردیاتھااب دیکھیں کہ فاسق کمانڈو پرویزمشرف پر غداری کے کے مقدمے کاکیافیصلہ آتاہے؟

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *