Home / Socio-political / وہی مسائل وہی حالات : آخر وجہ کیا ہے؟

وہی مسائل وہی حالات : آخر وجہ کیا ہے؟

Dr. Khwaja Ekram

جنوبی ایشیا میں امن  کے قیام کے لیے  ہر طرف سے کوششیں ہورہی ہیں لیکن قیام امن  کی تمام کوششیں رائیگاں نہیں تو کار فر بھی ثابت نہیں ہورہی ہیں۔حیرت اس بات پر  بھی ہے کہ امن کے لیے دنیا کے کئی اہم ممالک اس  کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں اور ہر ممکن تدبیریں بھی کی جارہی ہیں با وجود اس کے اگر اہداف ہاتھ نہیں آرہے ہیں تو  یہ تشویش کی بات اس لیے ہے کہ دنیا میں اقتصادی  تنزلی کا سرا بھی اسی سے جڑا ہوا اور آج کی بازار دنیا  میں اقتصاد  ہی وہ سرا ہے جس کا تعلق سماج اور معاشرے سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ غریبی مفلسی اور دیگر تمام مسائل کا تعلق بھی انھیں مسائل سے ہے ، تشویش اسی لیے بڑھتی جارہی ہے ۔ لیکن یہ دھماکہ خیز حالات کے با وجود اگر آج کی  ترقی یافتہ دنیا حل ڈھونڈھنے  میں ناکام ہے تو یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔

قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے بھی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کوششوں میں کہیں مفادات کی جنگ تونہیں ہے ؟ خلوص اور نیک نیتی کہیں غائب تو نہیں ہے؟جب ان پہلووں پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں جو ممالک براہ راست ان مسائل سے دو چار ہیں ، وہ سب کے سب مسائل کو اپنے مفاد کی عینک سے دیکھ رہے ہیں اور خطے میں قیام امن کے لیے کم اور ان علاقوں میں اپنی ساکھ جمانے کی فکر میں زیادہ   پریشان ہیں ۔ یہ ایک  بنیادی وجہ ہے کہ جس کے سبب یہ مسائل مزید مسائل پید کرر ہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس خطے میں قیام امن کے لیے امریکی کوششیں بھی  اس کی مصلحتوں سے جڑی ہوئی ہے اسی لیے وہ اکثر صاف اور واضح پالیسی بنانے میں ناکام رہا ہے ۔ امریکہ اگر خلوص نیتی سے سامنے آتا تو شاید   مسائل اب تک حل ہوچکے ہوتے۔جنوبی ایشیا میں امن کے حوالے سے زیادہ اہم افغانستان اور پاکستان کے ساتھ ہندستان کا معاملہ جڑا ہوا ہے ۔اور ان تمام حوالوں سے امریکہ کا رول سب سے اہم ہو جاتا ہے کیونکہ امریکہ ہے تمام معاملات میں دخیل ہے ۔ اب کوئی ملک چاہے یا نہ چاہے امریکہ کے رول سے انکار اور گریز نہیں کر سکتاا ور امریکہ ہے کہ ان معاملات کو ہمیشہ اپنے مفاد ے جوڑ کر دیکھتا ہے ۔ اسی لیے جب بھی کوئی وزیر یا اہم فوجی عہدہ دار پاکستان ، افغانستان یا ہندستان کا دورہ کرتا ہے تو اس کے بیانات  ہر دورے میں الگ لاگ ہوتے ہیں ۔  ہندستان میں آنے والا وزیر ہندستان کو سامنے رکھ کر بیان دیتا  ہے اور جب پاکستان میں قدم رکھتا ہے تو اس کے بیان اور لہجے میں اچانک تبدیلی آجاتی ہے ۔اور جب افغانستان  کی طرف قدم بڑھتے ہیں تو بیانات کا تضاد اور بھی بڑھتا جاتا ہے۔   گذشتہ ایک سال کے مختلف دوروں کو سامنے رکھیں  یہ حقیقت سامنے آجائے گی۔

ابھی حال ہی میں امریکہ کی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان اور افغانستان کا دورہ کیا ۔یہ دورہ میں دہشت گردی اور افغانستان میں قیام امن کے لیے کافی اہم تصور کیا جارہا تھا اور یہ سمجھا جارہا تھا کہ پاکستان کے حوالے شاید کوئی سخت اقدام  کا وقت ہے ۔ کیونکہ اس سے پہلے نیو یارک میں پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے جو بیان دیا تھا اس امریکہ اور پاکستان کی کشیدگی سامنے آئی تھی ۔پاکستان پر کئی الزامات بھی عائد کیے گئے اور پاکستان میں ملک گیر سطح پر احتجاج بھی ہوا تھا ۔ لیکن عملی قدم کسی جانب سے نہیں اٹھایا گیا۔ اس دورے سے چند روز قبل پاکستان کی آرمی چیف نے یہ بیان دے کر اس دورے کی نوعیت کو واضح کر دیا تھا ۔ ’’پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ ملکی دفاع بیرونی امداد کا مرہون منت نہیں ہے اور پاکستانی فوج کا انحصار امریکی امداد پر نہیں ہے۔پرویز کیانی نے کہا کہ امریکہ کو شمالی وزیرستان پر حملہ کرنے سے پہلے ’دس بار‘ سوچنا ہو گا۔شمالی وزیرستان اور ملک کے بعض دیگر علاقوں میں فوجی آپریشن کے امریکی مطالبے کے حوالے سے بری فوج کے سربراہ نے کہاتھا کہ پاکستانی فوج کسی بیرونی قوت کی فرمائش پر کارروائی نہیں کرتی اور تمام فوجی کارروائیاں قومی مفاد کے تابع ہوتی ہیں۔اگر کوئی مجھے اس بات پر قائل کر لے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے سے سارا مسئلہ حل ہو جائے گا تو میں کل ہی آپریشن کردوں۔” ان تمام پیش گفتاریوں کے باوجود ہیلری کلنٹن پاکستان آئیں اور اس کے بعد شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے شروع ہوگئے اب تک کئی شہری اور کئی دہشت گرد اس کی زد میں آچکے ہیں ۔ مگر اب پاکستان میں کسی جانب سے اس کے خلاف آواز نہیں بلند ہورہی ہے اور نہ ڈرون حملے کے خلاف غم و غصہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعدامریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے  کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس جانب دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان طالبان اور دیگر شدت پسندوں گروپوں کو افغان امن عمل میں شرکت کیلئے آمادہ کرے اور صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرے۔ اے ایف پی کے مطابق انہوں نے پاکستان کو مشکل اتحادی کہتے ہوئے کہا پاکستان کو واضح کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوری کارروائی کا اہم پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وضاحت کی کہ نام نہاد اچھے دہشت گردوں اور برے دہشت گردوں کے درمیان امتیاز بلاشبہ خود شکستگی ہے اور خطرناک ہے کسی بھی ملک کے بیگناہ شہریوں کو نشانہ بنانے والوں کو تحفظ دینا چاہئے اور نہ برداشت کرنا چاہئے۔ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان طالبان اور دیگر شدت پسندوں کو افغانستان کے امن عمل میں شریک کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور اس کیلئے عوامی سطح پر غیر مبہم اظہار بھی کیا جائے اور خفیہ ٹھکانوں کو بھی بند کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ممبئی حملوں کے ملزمان کے سزا دلانے کیلئے کاررائی تیز کرنا ہوگی ہم جب بھی پاکستانی حکام سے ملے انہیں لشکرطیبہ کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی ۔ ہلیری نے ایوان نمائندگان کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کا دورہ کامیاب رہا۔ قبل ازیں ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکا جانتاہے پاکستان میں کچھ عناصر غیرقانونی طور پر طالبان کی مدد کررہے ہیں‘ دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی حکام کے ساتھ واضح اور جامع مذاکرات ہوئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو میں ہلیری کلنٹن نے کہاکہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اعلیٰ سطح پر حکام طالبان کی مبینہ حمایت سے آگاہ ہیں یا نہیں، تاہم امکان یہی ہے کہ پاکستانی اداروں کے موجودہ یا ریٹائرڈ عناصر طالبان کو بھرپور سپورٹ فراہم کررہے ہیں۔ خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس سے اچھی طرح باخبر ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں کہا کہ پاکستان کا بہرحال ایک کردار ہے۔ یا تو وہ مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں، لاتعلق رہ سکتے ہیں یا پھر حالات کو خراب کرسکتے۔

ہیلری کلنٹن کے اس بریفنگ کے بعد ہی افغانستان میں امریکہ کے ڈپٹی کمانڈر جنرل کرٹس سکاپے روٹی نے الزام لگایا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج پر حملے پاکستانی فوج کی اجازت سے ہو رہے ہیں،غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق کابل سے ویڈیو لنک کے ذریعے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وقتاً فوقتاً ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی عسکریت پسندوں نے راکٹ یا مارٹر حملہ کیا ہے تو یہ پاکستانی فورس کی چیک پوسٹ کے علم میں ہوتا ہے،انہوں نے کہا کہ مشرقی پکتیکا صوبہ میں سرحد پار حملوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ہم پاکستانی ہم منصبوں سے اس حوالے سے بات کر چکے ہیں۔

ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  خطے میں قیام امن کے لیے بنیادی طور پر امریکہ او ر پاکستان ہی ذمہ دار ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ذمہ دارانہ رویہ نہیں اپنا رہے ہیں ۔پاکستان کو یہ شکایت ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے اسے اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ جبکہ امریکہ کا  یہ کہنا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا رول مشکوک ہے ، اس کے ساتھ ہی پاکستان  کو افغانستان میں ہندستان  کی موجدگی کسی بھی طرح گوارہ نہیں ۔ شاید اسی لیے پاکستان افغانستان کے معاملے میں بے اعتنائی سے کام لے رہا ہے ۔اسی لیے پاکستانی فوج  کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ افغان مصالحتی عمل میں پاکستان شریک نہیں کیوں کہ اسلام آبادکواس حوالے سے اعتمادمیں نہیں لیاگیااور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں مصالحت کے کیا اہداف ہیں،افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کی پالیسی امریکا کو پسند نہیں ،مفاہمتی عمل کی کامیابی یاکسی کومصالحت پرآمادہ کرنے کی ضمانت نہیں دے سکتے،کوئی گروپ ہماری جیب میں نہیں ، افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں اگرکوئی ہماراساتھ نہیں دے رہاتواس میں روڑے بھی نہ اٹکائے۔ میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پاکستان صرف اسی صورت میں افغان مصالحتی عمل کی مدد کر سکتا ہے جب اسے اعتماد میں لیا جائے پاکستانی فوجی ترجمان نے کہا کہ افعانستان میں قیام امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا اور اس ہدف کے حصول کے لیے پاکستان اپنے طریقے سے کام کر رہا ہے،ہماری پالیسی ہمارے اپنے وسائل اور مسائل کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے جو شائد انہیں زیادہ پسند نہیں آ رہی کیونکہ ان کی اپنی ترجیحات اور وقت کی کمی کے مسائل ہیں،جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پاکستان اور افغان تنازعے کے دیگر فریقوں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششوں میں افغان انٹیلی جنس کے ان سابق افسران کا اہم کردار ہے جو کہ افغان انٹیلی جنس سے نکالے گئے ہیں۔ادھرپاکستان کے وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی، نیٹو اور ایساف افواج کی حفاظت کی ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں کی جا سکتی۔

ان تمام تفصیلات سے یہی نتیجہ بر آمد  ہوتا ہے  کہ کوئی خلوص نیتی اور صاف دلی سے سامنے نہیں آرہا ہے ورنہ جنوبی ایشیا میں قیام امن اتنی بھیمشکل نہیں جتنا کہ اسے پیچیدہ سمجھا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے صرف یہی وہ عنصر ہے جس کے سبب ہند و پا ک  کے درمیان بھی کشیدگی پائی جاتی ہے اگر پاکستان اپنی سر زمین  کو دہشت گردوں سے پاک کر دے اور ہند مخالف طاقتوں کا پناہ نہ دے تو فورا ہی امن قائم ہو سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کو بھی مثبت اورمصلحتوں سے پاک منصوبہ بنانا ہوگا ورنہ جنوبی ایشیا میں امن کی کوششیں ہمیشہ  ہی ناکام رہیں گی۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *