Home / Socio-political / مولانا آزاد ایک صحافی اور سیاست داں

مولانا آزاد ایک صحافی اور سیاست داں

عابد انور

دنیا میں بہت کم ایسی شخصیتیں ہوتی ہیں جو بیک صحافی بھی ہوں، سیاست داں بھی ہوں، مفکر بھی ہوں مدبر بھی ہوں، مفسربھی ہوں،امامت کبری کے اہل بھی ہوں، سیادت و قیادت کے اعلی مقام پر بھی فائز ہوں لیکن مولانا محی الدین ابولکلام آزاد ایسی شخصیت تھی جن میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں بیک وقت وہ صحافی بھی تھے، قرآن کے مفسربھی تھے، اچھے مقرر بھی تھے، بلند قامت کے سیاست داں بھی تھے ۔ ان میں مومن کی تمام خوبیاں اور اوصاف موجود تھیں وہ مسلمانوں کی زوال پذیر سوچ سے کافی فکرمند بھی تھے۔ وہ علماء سے سیاست و قیادت کی توقع رکھتے تھے جو مدرسہ اور مسجد تک محدود ہوکرگئے تھے وہ علامہ اقبال کی طرح مدارس سے شاہین کے پیدا ہونے کے متمنی تھے۔ آزادی ہندوستان کے زبردست متوالے تھے وہ چاہتے تھے کہ مسلمان کثیر تعداد میں اس میں شرکت کریں اس کے لئے انہوں نے ایک تنظیم بھی قائم کی تھی گرچہ یہ تنظیم پروان نہیں چڑھ سکی لیکن اس کے عزائم نہایت بلند تھے ۔ اس کے لئے انہوں نے زبردست محنت بھی کی تھی اپنے اخبار الہلال اور دیگر تحریر کے ذریعہ اس کے منشور بھی شائع کئے تھے اور مسلمانوں میں نئی روح پھونکنے کی کوشش بھی کی تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا آزاد ہندوستانی مسلمانوں اور ملک کے لئے کیا سوچتے تھے۔ انہوں نے الہلال کے ذریعہ مسلمانوں ایک نئی صور پھونکنے کی بھرپور کوشش کی تھی اورکوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں انہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی نہ کی ہو۔ حق و صداقت کے زبردست علمبردار تھے۔ ان کی خواہش اور کوشش تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک امام ہونا چاہئے جس کاانتخاب اتفاق رائے سے ہو ۔ اس لئے شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمتہ اللہ کی مالٹا سے واپسی پر وہ چاہتے تھے کہ مولانا اس ذمہ داری سنبھالیں اور شیخ الہند کی ایسی شخصیت تھی جن پر سب کا اتفاق ہوسکتا تھا لیکن مولانا آزاد کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ مولانا آزاد کے نزدیک ایک مشترکہ قیادت کے بغیر مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا تھا،نہ ہی ان کی بات میں کوئی وزن ہوسکتی تھی اورنہ ہی ان کی بات سنی جائے گی۔اس کے بعد انہوں نے خود اپنے نام پر غور کیااور اس کے لئے بڑے بڑے علماء (خصوصاً شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی) کی رضامندی بھی حاصل کی لیکن افسوسناک یہ معاملہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکا۔

مولانا آزاد کی پیدائش مکہ معظمہ میں ۷ اگست ۱۸۸۸ کو ہوئی تھی۔ ۱۸۹۲ میں رسم بسم اللہ ادا کی گئی۔ ۱۸۹۸ میں ہندوستان واپس آئے۔وہ کانگریس کے کل ہند صدر منتخب ہونے والوں میں سب سے کم عمر تھے۔ مولانا کے والد جید عالم تھے اور بیعت ارشاد سے بھی ان کا تعلق تھا۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ 1857 کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ ۱۸۹۹ میں والدہ محترمہ کا انتفال ہوگیااس وقت آپ کی عمر محض ۱۱ سال کی تھی اس کے نو سال کے بعد جب آپ اخبار وکیل امرتسر میں ملازم تھے آپ کے والد ماجد کا ۱۵ اگست ۱۹۰۸ میں انتقال ہوگیا۔ ۱۹۰۱ میں زلیخا بیگم سے شادی ہوئی۔ ۲۲ فروری ۱۹۵۸ کو انتقال ہوا اور جامع مسجد کے نزدیک اردو پارک کے پاس مدفون ہوئے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ہندو مسلم اتحاد کے زبردست علمبردار تھے وہ کسی قیمت پر بھی اس اتحاد کے ٹوٹنے نہیں دینا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ اگر ”ہندو مسلم اتحاد کی قیمت پر سوراج“ حاصل ہوتا ہے تو ہمیں یہ سوراج نہیں چاہئے۔ مولانا مختلف موقعوں پر مسلمانوں کو ہندوؤں کے ساتھ کندھا سے کندھا ملاکر چلنے اورساتھ میں آزادی کی جنگ لڑنے کی تلقین کی تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ ہندو اور مسلمانوں کو آپس میں لڑاکر انگریز غلامی کے عہد کو طول دینا چاہتے ہیں ۔ اس اتحاد کی خاطر انہوں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ اس میں صرف کردیا ۔انہوں نے تقسیم ملک کے بعد پاکستان جانے والوں کو روکنے کی حتی المقدور کوشش کی ۔ وہ چاہتے تھے مسلمان ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان نہ جائیں کیوں کہ یہاں مسلمانوں کی بیش قیمتی وارثتیں بکھری پڑی ہیں۔ ان کا رکھوالا کون ہوگا ، کون اسے سنبھالے گا اور سب سے بڑی بات جو ان کے فہم و فراست نے محسوس کرلیا تھا کہ مسلمان پاکستان میں اپنے آپ کو غریب الدیار اور بے وطن محسوس کریں گے۔ یہ بات پاکستان کے حالات نے ثابت کردیا ہے ۔ پاکستان ہجرت کرنے والے ۶۰ سال سے زائد کا طویل ترین عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مہاجر کہلاتے ہیں۔ان میں سے بہت سے ہاں سے وہ ہجرت کرکے دوسرے ممالک میں چلے گئے ہیں۔ بے وطن ہرجگہ بے وطنی کا شکار ہوتا ہے۔پاکستان آج تک اپنے وجود کو ترس رہا ہے۔ وہاں کوئی سندھی ہے تو کوئی پنجابی ہے، تو کوئی بلوچی ہے تو دیگر لیکن پاکستانی کوئی نہیں ہے۔ مولانا کی فراست نے یہ دیکھ لیا تھا ایسی صورت میں مسلمانوں کا کیا حشر ہونے والا ہے اور وہ ہوکر رہا ۔

مولانا آزاد چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی کوئی ایسی جماعت ہو جس کے زیر نگیں ہندوستانی مسلمان اپنا سفر طے کرسکیں ۔انہوں نے اس حدیث شریف کو اپنے مطمح نظر رکھا تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”جس نے جماعت سے علاحدگی اختیار کی اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم بنایا“۔مولانا آزاد چاہتے تھے کہ مسلمان کسی شریعت کے پابند عالم کو اپنا امام بنالیں اور اس کی پیروی کریں جب تک کہ وہ خلاف شرع کوئی کام نہ کرے۔مولانا آزاد کے مطابق ”پوری قوم کا یہ اجتماعی فرض تھا کہ وہ کسی ایک شخص کو اپنا امام منتخب کرے اور انتخاب کے بعد اس کے ہر حکم کی بے چون و چرا پیروی کرے بشرطیکہ اس سے شریعت کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ اس طرح جب کوئی ایسا امام سامنے آجائے گا تو وہی مسلمانوں کی ملکی اور غیر ملکی سیاست میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے گا۔ صرف اس کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اختلافی مواقع پر فتوی جاری کرے نہ تو ہر عالم اس اہم فریضے کو ادا کرنے کااختیار رکھتا ہے اور نہ ہی ہر مدرسے کا استاذ اس حیثیت کا ہوتا ہے کہ وہ امام کے منصب کو پوری طرح ادا کرسکے“(مولانا آزاد کا خطبہ صدارت، بنگال خلافت کانفرنس ۱۹۲۰)۔ مولانا آزاد مسلمانوں کی جنگ آزادی میں شرکت ناگزیر سمجھتے تھے ان کے خیال میں ”ہندوؤں کے لئے ملک کی کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے لیکن مسلمانوں کے لئے ایک فرض دینی ہے اور داخل جہاد فی سبیل اللہ“۔

مولانا آزاد صرف ایک قائداور صرف امام الہند ہی نہیں تھے بلکہ وہ اس وقت کے تقاضوں کے بموجب ایک جید اور اعلی پایہ کے صحافی بھی تھے۔ مولانا آزاد کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے صحافتی ذوق کو تسکین دینے کے لئے پندرہ برس سے کم عمر میں۲۲ جنوری ۱۹۰۱ کو اپنا رسالہ المصباح نکالناشروع کیا ۔ ۱۹۰۲ میں کلکتہ سے شائع ہونے والا احسن الاخبار کی ادارت کی ذمہ داری ادا کی۔ اس کے بعد وہ حذنگ نظر، ایڈورڈ گزٹ، لسان الصدق، وکیل امرتسر، الندوہ لکھنو، دارالسلطنت کلکتہ ، الہلال اور البلاغ جیسے اخبارات و رسائل کی ادارت کی ذمہ داری ادا کی۔ یہاں مولانا آزاد کو نہ صرف یہ کہ صحافت کا جوہر دکھانے کا موقع ملا بلکہ مسلمانوں کے دکھ درد اور زبوں حالی متعارف ہونے کا موقع بھی ملا۔ وہ صحافتی اصولوں کے زبردست پابند تھے ۱۹۰۲ میں ان کا مضمون ”فن اخبار نویسی“ شائع ہوا تھا اس مضمون نے اہل علم کو اپنی طرف خاصا متوجہ کیااور اس سے مولانا کی کم عمری میں ہی صحافت میں گہری وابستگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ صحافتی زندگی نے مولانا آزاد کوبین الاقوامی امور سے ہم آہنگ کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہیں مختلف ممالک کے رسائل و جرائد کے مطالعہ کا موقع ملا ۔ مولانا کو اس سے بین الاقوامی امور اور دیگر قوموں کی تحریک، جدوجہد اور دیگر چیزیں سمجھے میں مدد ملی۔ مولانا ہندوستانی مسائل، مسلمانوں کے مسائل سمیت بین الاقوامی امور پر اخبارات میں مضامین لکھنے لگے۔ حق اور صاف گوئی مولانا کا شعار تھا تا عمر انہوں نے اس کی پاسداری کی یہاں تک کہ جب ملک آزاد ہونے والا تھا اور پاکستان کی تقسیم عمل میں آرہی تھی اس وقت بھی صاف گوئی نہیں چکے اور انہوں نے کبھی بھی دل سے ہندوستان کی تقسیم کو قبول نہیں کیا اس تقسیم سے ہمیشہ افسردہ رہے۔ اس بات سخت خفا تھے گاندھی جی نے ملک کی تقسیم کے فارمولا کو قبول کیوں کیا۔

مولانا آزاد نے اپنی صحافتی زندگی میں کسی کی تابعداری، اثر یا دباؤ کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے صحافت میں ہمیشہ بے باک، بے لاگ رویہ اپنایا یہی وجہ ہے کہ وہ کسی جگہ زیادہ دنوں تک نہیں رہ پائے کیوں کہ مولانا کا مزاج انقلابی تھا اور اخبار کے مالکان کو بہت کچھ دیکھنا ہوگایہاں وہ اپنی پالیسی تک فروخت کرنے سے گریز نہیں کرتے جیسا کہ اس دور میں صحافت میں ہورہا ہے خصوصاً اردو اخبارات کی پالیسی کیا ہوتی یہ کسی صحافی کے سمجھ میں نہیں آتا کیوں کہ مفادات کے ساتھ پل پل میں پالیسی تبدیل ہوتی رہتی ہے اور صحافت اس کی پروان چڑھتی رہتی ہے۔ مولانا آزاد کے پاس ایک صاحب ثروت نے بطور عطیہ خطیر رقم کا چیک بھیجا لیکن مولانا نے اسے شکریہ کے ساتھ واپس کردیا اور لکھا کہ ”ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قیمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی اور رقم لینا جائز رکھتا ہو، وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن کے لئے ایک دھبہ اور سرتا سر عار ہے ہم اخبار نویسوں کی سطح کو بہت بلند ی پر دیکھتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فرض الہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں“۔

مولانا نے صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی سرگرم رول ادا کیا۔ وہ تقریباً ساری قومی تحریک میں شامل رہے اور اس کے بدلے انہیں متعدد بار جیل کے سلاختوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ احمد نگر جیل سمیت متعدد جیلوں میں رہے۔ اس وقت بھی آپ جیل میں تھے جب آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ مولانا تمام سیاسی، صحافتی، معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باوجود متعدد کتابیں تنصیف کیں جن میں تذکرہ اور ترجمان القرآن کا نام سرفہرست ہے۔ مولانا کو آزاد ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے عہدہ کے دوران متعدد تعلیمی اقدامات کئے جس میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا قیام بھی شامل ہے۔

مولانا نے صحافت کے معیار کو ہمیشہ قائم رکھا تھا وہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکے اور نہ ہی کبھی انہوں نے اپنی صحافتی زندگی پر آنچ آنے دی۔ انہوں صحافت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا تھا اوروہ خوابیدہ مسلمانوں نیند سے جگانا چاہتے تھے ۔ بہترین صحافی کے ساتھ وہ بہترین نثر نگاربھی تھے ان کی نثر کا کوئی جواب نہیں ہے۔ مولانا کو ارد، عربی اورفارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا اس لئے مولانا کی نثر روانی ہے اور وہ اپنی بات کہنے کے لئے موزوں سے موزوں ترین الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ مولانا آزاد جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے ہندوستان میں اس وقت مولانا آزاد کی سخت ضرورت ہے خصوصاً مسلمانوں کیلئے تو ازحد ضروری ہے ۔کاش کوئی مسلم لیڈر مولانا آزاد کے طریقہ کار کو اپنا کر مسلمانوں کی قیادت کا ذمہ سنھال لے اور انہیں ایسی قیادت فراہم کرے جوفراست پر مبنی ہو تاکہ مسلمان ایک لیڈر کے سایہ تلے اپنے مسائل اور پریشانیوں کا حل تلاش کرسکیں۔ مولانا آزاد کی فراست کا عشر عشیر بھی آج مسلم رہنما اور علماء میں پیدا ہوجائے تو مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی آسکتی ہے اور وہ اپنے شاندار ماضی کے راستے پر دوبارہ روانی کے ساتھ دوڑ سکتے ہیں لیکن مسلم رہنما کی بات تو جانے دیں آج کے بڑے بڑے کچھ علماء کرام میں مادیت پردستی کی بیماری درآئی ہے اور وہ حق و باطل کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ کون دعوت دے رہا ہے اس سے مطلب نہیں ہوتا انہیں صرف اے سی کار، ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور نذرانہ چاہئے خواہ وہ بڑا سے بڑا زکوة ، چندہ خوراور بدنام زمانہ مولوی کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ نہ صرف اسلام کے دشمن بلکہ اسلام پر ایک بدنما داغ بھی ہیں۔ ایسے لوگوں کی صفائی کئے بغیر نہ تو اسلام کی سچی تصویر سامنے آئے گی نہ ہی مسلمانوں کا صالح معاشرہ قائم ہوگا کیوں کہ ان کا فلسفہ ہے کہ پیسے سے ہر چیز خریدی جاسکتی ہے اور وہ اپنے سیاسی ، سماجی اور معاشی مقصد کے حصول کے لئے بیرون ملک سے لائے زکوة کے پیسے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے علماء فراست سے عاری ہیں جو ان لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں اگر وہ سچے مومن ہوتے تو ایسا نہ کرتے کیوں کہ فراست مومن کی شناخت ہے۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

2 comments

  1. بہت اچھا مضمون لکھا ہے جناب آپ نے ،

  2. آپ نے تحریر میں یقینا مولانا آزاد کاحق ادا کرنے کوشش کی، لیکن آخر میں آپ کی زندگی سے جو سبق پیش کرنا چاہیے تھا، اسے آپ نے سمجھا نہیں، اور جذبات میں صرف علماء کرام پر ہی برس پڑے، حالانکہ ابوالکلام آزاد ،فی نفسہ عالم دین ضرور تھے، لیکن ان کا میدان سیاست تھا، وطن عزیز میں مسلمانوں کے تئیں مولانا آزاد کی ناقابل فراموش خدمات ہیں، لیکن حالیہ علماء کرام کی بھی خدمات کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا، راقم سطور نے ان کالجوں اور اسکولوں کے ذمہ داران کو بہت قریب سے دیکھا ہے، جو کسی مدرسے یا مسجد کے مولوی نہیں ہے، بلکہ وہ بڑے پڑھے لکھے اور ڈاکٹر اور پتہ نہیں کیا کیا ڈگریوں کے حامل ہیں، لیکن انھون نے مسلمانوں کو تعلیم کے لیے ملنے والے حکومت کی امداد کو بھی نہیں بخشا، اور پورا پورا ہڑپنے کی کوشش، یہ حال وطن عزیز کے کسی ایک شہر نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے، اس کے مقابل عابد صاحب آپ وطن عزیز بھر میں مدارس پر نظر ڈالیں، اور کسی ایک بڑی جامعہ کی طرح کوئی ایسا ادارہ بتایے جہاں مسلمان بچوں کو اتنی سہولیات کے ساتھہ ساتھہ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا جاتا ہو، بلکہ ہم نے تو صرف مفاد پرستوں کو ہی پایا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *