Home / Socio-political / ملالہ یوسف زئی : جدو جہد کا ایک نیا استعارہ

ملالہ یوسف زئی : جدو جہد کا ایک نیا استعارہ

Content goes here

ملالہ یوسف زئی اب صرف ایک لڑکی کا نام نہیں رہا بلکہ وہ معاشرے میں شدت پسندی اور منفی سوچ کے خلاف ابھرتی ہوئی آواز کا استعارہ ہے۔ یہ نام دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کے سامنے شہرت اور عزت کی بلندیوں پر پہونچ گیا اور اب عالمی سطح پر اس کی پزیرائی ۱۶ جولائی کو ملالہ ڈے کے نام سے منا کر ہو رہی ہے۔  آخر کیا ہے ملالہ میں کہ ہر شخص اس سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے لیے رطب اللسان رہتا ہے۔ آخر کیوں اسے اتنی اہمیت دی جا رہی ہے اور کیوں عالمی میڈیا میں اس کے قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔  اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں منگورہ کی گلیوں میں جھانکنا ہوگا جہاں سے ملالہ یوسف زئی نام کی اس لڑکی کی داستان کی ابتدا ہوئی تھی۔ منگورہ وادی سوات کا ایک ایسا حصہ ہے جو طالبانی شدت پسندوں کے تشدد کا ایک عرصے سے شکار ہے اور وہاں کے  ان اسکولوں کو طالبان نے  چن چن کر نشانہ بنایا جہاں لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس خطے میں لڑکیوں کی تعلیم دیوانے کا خواب ہو گئی اور وہاں کے لوگوں نے بھی یہ کڑوا سچ مان لیا کہ اب ان کی بچیاں کبھی اسکول نہیں جا پائیں گی کیونکہ  ان میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ طالبان سے براہ راست ٹکرا سکیں۔ ان حالات میں گل مکئی نام کی ایک لڑکی نے بلاگ پر اس تعلیمی زبوں حالی کو  ڈائری کی شکل میں اجاگر کیا جسے بی بی سی نے  ترتیب وار نشر بھی کیا۔  یہ جرأت مندانہ قدم در اصل  ملالہ یوسف زئی کا تھا جس نے اپنے خطے کی اور اپنی حقیقت کو ساری دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے اپنے لیے اور اپنی ہی جیسی دوسری لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حق کا مطالبہ کیا۔ بی بی سی پر اس ڈائری کے نشر ہوتے ہیں لوگوں نے طالبان کے ان اقدام پر کڑی تنقید کرنی شروع کردی اور عالمی سطح پر بھی  اس عمل کوسنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے ملالہ کو اپنا دشمن مانتے ہوئے اس ننھی سی بچی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور موقع ملتے ہی اس پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔

          ملالہ کی اس داستان میں بہادری اور دلیری کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کا جذبہ اور پختگی دکھائی دیتی ہے اور یہی اسے منفرد حیثیت عطا کرتی ہے۔ اس کی عظمت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس پر جان لیوا حملہ کیا گیا بلکہ اس کی عظمت کی وجہ تشدد اور ظلم کے خلاف  اس کی فکر ہے جس نے طالبان کو بھی خوفزدہ کر دیا، اور اس حد تک کر دیا کہ وہ اس  کی ذات کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹا دینے کے درپے ہو گئے۔

          ملالہ ڈے پر اقوام متحدہ میں ملالہ کی آواز میں جو یقین اور پختگی تھی وہ اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ ملالہ نے حملے کے بعد ایک نئی ہمت کے ساتھ اس جنگ کو لڑنے کی ٹھان لی ہے اور اس جنگ میں اب اس کے ساتھ دنیا کے بے شمار لوگ شامل ہیں جو اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں ۔ اس نے گاندھی اور منڈیلا کی طرز پر اپنی جنگ کا اعلان کیا اور عدم تشدد کو اپنا ہتھیار بنایا اور اپنی اس جنگ کو ایک نئی جہت دی۔ یہ ملالہ یوسف زئی پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ قوی ارادے کے ساتھ اپنے جنگ کا اعلان کر رہی تھی اوریہی وجہ ہے کہ اب طالبان کے خیمے سے بھی اس کے لیے صدائے تحسین بلند ہونے لگی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں جو عدم برداشت اور تشدد کی فضا ہے اس سے نبردآزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہزاروں ملالہ اپنے جنگ کا اعلان کریں تاکہ یہ معاشرہ جبر و تشدد کے عفریت سے پاک ہو۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *