Home / Socio-political / لاپتہ افراد کا جن پھر بوتل سے باہر

لاپتہ افراد کا جن پھر بوتل سے باہر

لاپتہ افراد کا جن پھر بوتل سے باہر

پاکستان میں ایک بار پھر لا پتہ افراد کا جن بوتل سے نکل گیا ہے اور اس ضمن میں پھر عدالت نے فوجداری مقدمے کی دھمکی دی ہے۔ ۴ جولائی کو پیشاور ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد سے متعلق تفصیلی ریکارڈ پیش نہ کیے جانے پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر عدالتی حکم نہ مانا گیا تو عدالت فوجداری مقدمہ قائم کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ عدالت کے اس حکم میں ایک طرح کی بے بسی بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ کئی سارے عدالتی احکامات کے باوجود خفیہ ادارے نہ تو عدالتی حکم ماننے کو تیار ہیں اور نہ ہی وہ لا پتہ افراد سے متعلق مطلوبہ معلومات ہی عدالت کو فراہم کر رہے ہیں۔ اسی ضمن میں راول پنڈی پولس نے بھی آئی ۔ ایس۔ آئی کے بریگیڈیئر کو شامل تفتیش کیا ہے ۔ پولس کا یہ فیصلہ ایک بازیاب ہونے والے شخص کے بیان کا نتیجہ ہے جس میں اس شخص نے ایک آئی ۔ ایس۔ آئی افسر پر اپنے اغوا کا الزام لگایا تھا۔

پاکستانی ایجنسیوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی روش نہیں بدلیں گی اور انہیں کسی کی پروا نہیں ہے، خواہ وہ حکومت ہو خواہ عدلیہ۔ یہ بات بھی فہم سے بالا تر ہے کہ اشفاق پرویز کیانی جیسا شخص جو ہمیشہ پاکستانی عوام کو ایک سلجھی ہوئی زندگی گزارنے کا سبق دیتا ہے اور مذہبی عدم برداشت کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے کیسے ان جرائم کو برداشت کر سکتا ہے۔

سقوط ڈھاکہ کا سبق شاید پاکستان بھول چکا ہے یا اسے اس بات کی کبھی پروا ہی نہیں رہی۔ قائد اعظم سے متعلق وہ واقعہ اگر سچ ہے جس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنا رومال میز پر ڈال کر یہ کہا تھا کہ اگر اس رومال کے برابر زمین بھی پاکستان کے نام پر ملے گی تو میں وہ پاکستان لے لوںگا تو آج ان ایجنسیوں کی کارگزاریوں پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ متحد اور مضبوط پاکستان نہ کل کی کا نصب العین تھا نہ آج ہے۔

کل بھی پاکستا ن کو شخصی مفاد اور انا نے تباہ کیا آج بھی وہی چیزیں اسی برباد کر رہی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کا ٹھیکرا آج تک بھارت کے سر پر پھوڑا جاتا ہے لیکن کبھی پاکستان نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر اس کی وجوہات کیا تھیں۔ آج بھی بلوچستان کی محرومیاں اپنے عروج پر ہیں اور ہر کس و نا کس پاکستان اور اس کی حکومت سے نالاں ہے۔ گلگت بلتستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کی عوام اپنے پیاروں کی لاشوں کو کندھا دے دے کر تھک چکی ہے اور اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ پاکستان میں ہیں یا چین میں۔ وہ تو بس جینا چاہتے ہیں اور فقط یہ چاہتے ہیں کہ کچھ لوگ تو بچ جائیں جو ان کی لاشوں کو کندھا دے سکیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *