Home / Socio-political / عوامی مسائل کے تئیں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ممبران پارلیمنٹ

عوامی مسائل کے تئیں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ممبران پارلیمنٹ

عوامی مسائل کے تئیں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ممبران پارلیمنٹ
عابد انور کسی ملک کے وقار کا پتہ اس کی پارلیمنٹ کی عظمت سے چلتاہے۔پارلیمنٹ میں بحث کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ ملک کے نمائندے کتنے مہذب ہیں ۔ ایک دوسرے کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ ملک کے کمزور طبقات،اقلیتوںاور دیگر پسماندہ طبقات کے تئیں پارلیمنٹ کتنا جواب دہ ہے۔ اس میں ان طبقوںکی نمائندگی کتنی ہے اور کتنی بار ان کی آواز سنی جاتی ہے اور اس پر کتناعمل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ممالک میں ملک کے ممتاز اور ذہین ترین،پالیسی سازاور ملک کو ترقی دینے کے لئے خصوصی وژن رکھنے والے افرادہی عوام کے نمائندہ ہوتے تھے۔ پارلیمنٹ کارعب اس کے ممبران سے ہوتا ہے۔ یہی لوگ پوری دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ ملک اپنی قومی سلامتی ‘اپنے مسائل اور ان کے ادراک کے تئیں کتنا حساس ہے۔ کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ حقیقی معنوں میں اس کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں۔ حکومت کی لاپروائی اجاگر کرنے کے ساتھ اپنی ذمہ داری کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ وہ صرف طعن و تشنیع سے کام نہیں لیتے بلکہ مسائل کا مناسب حل بھی پیش کرتے ہیں۔ حزب اختلاف کا کام ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی خامیوں پر نظر رکھے اور اس کے اچھے کاموں کو سراہے لیکن یہاں ہوتا یہ ہے کہ حکومت کا ہر قدم اور ہر فعل اپوزیشن کو ناگوار گزرتا ہے۔ یہاں حزب اختلاف کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ حکومت کے ہر فیصلہ کی مخالفت کرنا خواہ وہ عوامی مفاد میں ہی کیوں نہ ہو۔ اپوزیشن جماعتیں ایک مثال بھی پیش نہیں کرسکتیں کہ انہوں نے حکومت کے کسی کام کی ستائش کی ہو۔ یہ رویہ ملک کی مصنوعی جمہوریت کو ظاہر کرتاہے جس میں تحمل کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ جمہوریت سب کو انصاف فراہم کرنے کاایک نظام ہے نہ کہ کسی طبقہ کو اکثریت کے دم پر ہراساں کرنے کانسخہ کیمیا۔ ہندوستان کی جمہوریت حقیقی معنوں میں کبھی جمہوریت کاروپ نہیں لے سکی۔ روزاول سے ہی اس جمہوریت پر طبقاتی کشمکش،علاقہ بندی، مخصوص ریاستوں کے مفادات کا تحفظ اور اکثریت کے خمار میں کسی منتخبہ ریاستی حکومت کو بے دخل کردینا جیسا رویہ حاوی رہا ہے۔ اسی لئے ملکی مفادات کے تعلق سے بھی حزب اقتدار اورحزب اختلافات کے درمیان کبھی مثبت سوچ پیدا نہیں ہوسکی۔
گزشتہ دنوں ہندوستانی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس کی ساٹھویںسالگرہ بہت تزک و احتشام کے ساتھ منایاگیا۔ 26 جنوری 1950 کو آئین نافذ ہونے کے بعد ملک کے پہلے عام انتخابات 25 اکتوبر 1951 سے 21 فروری 1952 کے درمیان کرائے گئے تھے۔ پہلی لوک سبھا کی تشکیل 17 اپریل 1952 کو ہوئی تھی اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی پہلی میٹنگ 13 مئی 1952 کو بلائی گئی تھی۔ 13 مئی 1952 کو پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس ہوا تھا۔پہلے اجلاس کے 60 سال پورے ہونے کے موقع پر 13 مئی 2012کودونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایاگیاتھا۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس کا 60 سالہ سفر کوئی معمولی سفر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مختصر مدت ۔ یہ عرصہ کسی بھی قوم کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے کافی ہوتاہے۔چین کی مثال سامنے ہے۔ کسی چیز کی سالگرہ اس لئے منائی جاتی ہے کہ اس کی حصولیابیوں اور ناکامیوںکاجائزہ لیاجائے۔ یہ دیکھا جائے کہ یہ کارواں اپنے مقصد کے حصول میں کتنا کامیاب رہا،کہاں کہاں خامی رہ گئی ، کون سا شعبہ ، کون سا طبقہ اورکون سا علاقہ ترقی دھارے سے الگ تھلگ پڑگیا۔یہ تمام چیزیں پارلیمنٹ کے اس مشترکہ اجلاس میں نظر نہیںآئیں البتہ پارلیمنٹ کے وقارکو برقراریابحال رکھنے پربیشتر ممبران نے زور دیا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے راجیہ سبھا کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس ایوان نے ملک کو درپیش کئی اہم مسائل پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب سب کو مل کر نیا باب رقم کرناہے۔ ہندوستانی عوام نے بار بار پارلیمانی جمہوریت میں اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے اس لئے تمام ممبران پارلیمنٹ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جمہوریت کے اس عظیم ادارے کا احترام کریں اور اس جذبہ کا بھی احترام کریں جو ایک منتخب نمائندے سے امید کی جاتی ہے۔ حزب اختلاف کی لیڈر سشما سوراج نے پارلیمنٹ کے گزشتہ 60 سالوں کے سفر میں میں سماجی، سیاسی اور اقتصادی فکر میں بھی تبدیلی آئی ہے جس کا اثر پارلیمنٹ میں صاف دکھائی پڑتا ہے۔راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر ارون جیٹلی نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے سینئر رکن پارلیمنٹ رشانگ کوشنگ کو مبارک باد دی جو کہ 1952 میں ہونے والی پہلی میٹنگ میں بھی رکن کے طور پر موجود تھے اور 60 سال بعد 2012 میں بھی رکن پارلیمنٹ کے طور پر ایوان میں موجود ہیں۔وزیر خزانہ پرنب مکھرجی نے کہا کہ 1952 کا سال ہندوستان میں جمہوریت کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے کہا کہ کئی ممالک میں جمہوریت ناکام رہا لیکن ہندوستان میں جمہوریت کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب رہا ہے اس کے برعکس نظریے کے لئے رواداری اور احترام کا احساس ہونا۔پارلیمنٹ سے ہر سال کئی اہم بل منظور ہوتے ہیں جو ملک کی سمت اور حالت طے کرتے ہیں۔
تمام رہنماؤںنے صرف نام نہاد سنہرے سفر کویاد کیالیکن کسی نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی، دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے اورہندوستان کے دور دراز علاقوںمیںبسنے والے ان لوگوں کے بارے میںکچھ نہیں کہا جو اب تک جمہوریت کے فوائد سے محروم ہیں۔ وہ آج بھی بنیوںاور مہاجنوںکے آہنی زنجیروں میںقید ہیں۔ جن کے پاس کھانے کے لئے اناج، پہننے کے لئے کپڑے، بچوں کوپڑھانے کے لئے اسکول، علاج کیلئے اسپتال اور زندگی گزارنے کیلئے دیگر سہولتوں کا فقدان ہے۔جمہوریت پارلیمنٹ تک تو پہنچ گئی لیکن غریبوں تک نہیں پہنچ سکی۔ جمہوریت کا مقصد صرف نمائندہ منتخب کرنا نہیں ہے بلکہ دولت کا مساویانہ تقسیم، حقوق کی ادائیگی اور ملک کے تمام وسائل پر شہریوں کے یکساں حقوق بھی ہے۔ اس ضمن میں اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو ہندوستانی جمہوریت بالکل بونی نظر آتی ہے کیوں کہ ان تمام سہولتوں پرملک کے ایک خاص طبقے کاقبضہ ہے۔ اس جمہوری ملک میںسرمایہ دارانہ نظام کو زبردست فروغ حاصل ہوا ہے اور جمہوریت کے نام پرایک مخصوص طبقہ نے وہ کام انجام دیا ہے جو شہنشاہیت میں بھی ممکن نہیں تھا۔پارلیمنٹ کی کارکردگی میں بھی بتدریج گراوٹ نظر آرہی ہے۔ ممبران پارلیمنٹ اجلاس کے تئیں نہایت غیر ذمہ دار ثابت ہورہے ہیںاور پارلیمنٹ میں مثبت بحث خال خال ہی دیکھنے ملتی ہے۔ اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پہلے سیشن میں 82 بل منظور ہوئے تھے۔اب تک سب سے زیادہ بل 1976 میں پاس ہوئے جب ایمرجنسی تھا۔یہ تعداد 118 تھی۔ سب سے کم بل 2004 میں پاس میں ہوئے تھے یعنی صرف 18۔ان ساٹھ برسوں میں بلوں اور سنجیدہ بحث میں ہی کمی نہیں آئی ہے بلکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی کمی آئی ہے۔ 1952 کے سیشن میں لوک سبھا کی کل 103 اجلاس منعقد ہوئے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1974 تک مسلسل اجلاسوں کی تعداد 100 سے زائد تھی۔ 1956 میں تو سب سے زیادہ 151 نشستیں ہوئی تھیں لیکن 1975 سے اس میں کمی آنی شروع ہو گئی۔1974 میں 119 کے مقابلے 1975 میں صرف 63 اجلاس ہوئے تھے ۔ 1974 کے بعد 2011 تک صرف پانچ بار ایسا ہوا کہ اجلاس کی تعداد 100 کے پارکر گئی۔ 1975 میں ایمرجنسی کے دوران لوک سبھا کی کل 63 نشستیں ہوئی تھیں۔لوک سبھا کی اب تک سب سے کم نشستیں 2008 میں ہوئی ہیں جن کی تعداد صرف 46 ہے۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ممبران پارلیمنٹ عوامی مسائل کے تئیںکتنے فعال ہیں۔ یہ اس ملک کی پارلیمنٹ کی کارکردگی ہے جس کی نصف سے زائد آبادی کو پیٹ بھر کھانا میسر نہیں ہے۔
جولوگ یا ممبران پارلیمنٹ جنہوںنے پارلیمنٹ کے ابتدائی دور کو دیکھا ہے اور با حیات ہیں، موجودہ ممبران پارلیمنٹ کے رویے پر خون کے آنسو روتے ہیں۔وہ اس دور کو یاد کرتے ہیں جب پارلیمنٹ مہذب، تعلیم یافتہ، سیکولر مزاج اور اقدار کے حامل افراد کا گہوارہ ہوا کرتی تھی۔ ہندوستان کی پہلی پارلیمنٹ کے چند زندہ ارکان میں سے ایک ریشم لال جانگڑے اس بات سے ناراض ہیں کہ اب پارلیمنٹ میں پہنچنے والے ممبران عوام کے مسائل نہیں اٹھاتے اور انتخاب کے بعد وہ عوام کو بھول جاتے ہیں۔چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں جنتا کوارٹر میں رہنے والے 88 سال کے ریشم لال جانگڑے پہلی بار 1950 میں پارلیمنٹ کیلئے نامزد ہوئے تھے بعد میں 1952 میں انہوں نے بلاسپور سے انتخاب جیتا اور ملک کی پہلی لوک سبھا کے رکن بنے تھے، وہ آج کی سیاست کے ساتھ اس وقت کی سیاست کا مقابلہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ان دنوں کی سیاست میں جو لوگ تھے، وہ جس علاقے کی نمائندگی کرتے تھے، وہاں کے لوگوں سے ان کی بحث ہوتی تھی، بات چیت ہوتی تھی۔ ان دنوں بڑی زندہ بحث ہوا کرتی تھی اب ایسا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آج کے سیاست داں عوام کے مسائل بھی اب بہت کم اٹھا تے ہیں۔
پہلے سیاست داں عوامی مسائل کے تئیں کتنے جواب دہ تھے اس کا اندازہ پہلے لوک سبھا کی منعقدہ کل نشست سے لگایاجاسکتا ہے۔ پہلی لوک سبھا میں کل 677 نشستیں ہوئی تھیں جو تقریبا 3784 گھنٹے چلیں۔ اس کا تقریبا 48.8 فیصد وقت کا استعمال آئینی کاموں کیلئے کیا گیا تھا لیکن حالات بدل گئے ہیں۔ اب شاذ و نادر ہی ایسے مواقع آتے ہیں جب سنجیدہ بحث ہوتی ہو ۔آج زیادہ تر وقت ہنگامے کی نذر ہوجاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں ہنگامہ کرنا، پارلیمنٹ کی کارروائی نہ چلنے دینا صرف ایک فیشن ہی نہیں بلکہ ایسالگتا ہے کہ ممبران پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ پہلی لوک سبھا میں ہر سال اوسطا 72 بل منظور ہوئے تھے 15 ویں لوک سبھا میں یہ تعداد کم ہوکر 40 رہ گئی ہے۔ قومی مسائل کی جگہ علاقائی مسائل نے لے لئے ہیں۔ جواہر لال نہرو جب وزیراعظم تھے تو اس وقت بین الاقوامی امور پر پارلیمنٹ میں زیادہ بحث ہوتی تھی۔آج مقامی اور علاقائی مسائل پارلیمنٹ میں زیادہ اٹھائے جاتے ہیں، جبکہ ان پر ریاست کی اسمبلی میں بحث ہونی چاہئے تھی۔ ممبران پارلیمنٹ کے معیار میں بھی زبردست انحطاط آیاہے ۔پہلی لوک سبھا میں زیادہ تر تربیت یافتہ وکیل تھے اس وقت زراعت سے وابستہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہی نہیں، عمر کے لحاظ سے بھی اس میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ 1952 میں صرف 20 فیصد ممبران پارلیمنٹ 56 یا اس سے زیادہ عمر کے تھے جبکہ 2009 میں یہ تعداد 43 فیصد ہو گئی ہے۔
مسلمانوں کے تعلق سے بھی ارکان پارلیمنٹ کا نظریہ اچھا نہیں رہا ،جب مولانا آزاد ااور مولانا حفظ الرحمان سیوہارہوی پارلیمنٹ کی زینت ہوا کرتے تھے تو اس وقت وہا ں مسلمانوں کی آوازیںگونجتی تھیں ، مسلمانوںکے بارے میں ،ان کے مسائل، تعلیمی واقتصادی حالت پربحث ہوتی تھی لیکن اس کے بعدجومسلم ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوکر آئے تھے اور آرہے ہیں وہ پارٹی کے غلام ہوا کرتے ہیں۔ انہیں مسلمانوںکے بارے میں زبان کھولنے سے پہلے دس بار سوچنا پڑتا ہے اس سے کون ناراض ہوگا اور کون خوش، ۔ اس 60 سالہ اجلاس کی طویل تاریخ میں پارلیمنٹ مسلمانوں کا کوئی بھی مسئلہ خواہ وہ تعلیم کا ہو یا معاشیات کا ، سیاست کا ہویا دیگر مسائل ہوں حل کرنے میںناکام رہا ہے۔ جہاں اس کی ذمہ داری پارلیمنٹ کے سارے ممبران کی تھی وہیں مسلم ممبران اس سے مبرانہیں ہیں بلکہ سب سے زیادہ ذمہ داری مسلم ممبران کی ہی تھی۔ ان لوگوں نے مسلم مسائل کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں اٹھایا۔ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن نے مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی، معاشرتی اورسیاسی پسماندگی پر پڑی تہہ در تہہ پرت کو ہٹا دیا ہے لیکن مسلم سیاست دانوں نے موثر ڈھنگ سے اس کے نفاذ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے ایم ایل اے،ایم پی اور مسلم وزرائے تک نے مسلمانوں کے جلسے جلوس میں دھاڑیں ضرور ماریں لیکن وہ یہ معاملہ اس جگہ اٹھانے میںپوری طرح ناکام رہے جہاں ان مسائل کا تصفیہ ہوتاہے۔ اقلیتوں کے نام پر جتنا بھی فنڈ الاٹ ہوتا ہے کہ وہ بدھسٹ، جین،سکھ اور دیگر اقلیتوں کے حصے میں چلا جاتا ہے ۔ نام مسلمانوں کا آتا ہے کہ اس پر اتنا پیسہ خرچ کیا گیا۔ حکومت ہند نے ملک کے 90 اضلاع کو اقلیتی اضلاع قرار دیا ہے اور اس کے لئے وافر رقم مختص کیا ہے لیکن جب حقیقی اعدادو شمار اور وہاںکے مسلمانوں کی صورت حال پر روشنی ڈالیں تو حکومت کے بے وقوف بنانے کے طویل سلسلے کی ایک کڑی نظر آئے گی کہ مسلمانوں کے لئے مخصوص فنڈکو کس بے دردی سے اندرا آواس اور دیگر مدوں میں بے دریغ استعمال کیا جارہاہے اور کاغذوں پرمسلمانوں کی فلاح وبہبود دکھائی جارہی ہے۔ یہ کام مسلم ممبران پارلیمنٹ کا تھا وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھاتے ۔ چھوٹے چھوٹے معاملے کو لیکر پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کی جاتی رہی ہے۔ مسلم ممبران پارلیمنٹ سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ انہوں نے مسلم مسائل کے سلسلے میں کتنی بار پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کی ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ مسلم ممبران پارلیمنٹ کو اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا اور نہ وہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ ان تمام حقوق اور مراعات کو حاصل کرنے کے لئے مسلم نوجوانوں کو آگے آنا ہوگااور سیاست دانوں پر تکیہ نہ کرتے ہوئے اپنے مسائل کے سلسلے میں انہیں اپنی آواز اٹھانی ہوگی۔جس معاشرہ میں نوجوان طبقہ اپنے حقوق اور مراعات کے تئیں بیدار ہوتاہے اس معاشرہ کو کوئی بھی نظرانداز کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *