Home / Socio-political / عوامی مئوقف

عوامی مئوقف

عباس ملک

آل پارٹیز کانفرنس نے اعلامیہ جاری کر دیا اور اقوام عالم کے سامنے قومی یکجہتی کا نمونہ پیش کیا ۔تما م سیاسی فریقین کا ایک چھت تلے اور ایک پرچم کے سائے تلے اکھٹا ہو کر دکھانا بلا شبہ ایک مستحصن عمل ہے ۔یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ دیگر تما مفادات کو ملی مفادات پر ترجیح نہیں دی جاستکی اور یہ اس کا نمونہ ہے ۔ہم تمام اختلافات خوہ وہ گروہی ،لسانی یا مذہبی ہوں سے قومی سلامتی کو اولیت دیتے ہیں ۔معلوم نہیں کہ حربی دفاعی قومتوں اور جمہوری اکابرین کے ساتھ پاکستان کے وفاق کی علامت صدر مملکت اس موقع پر کیوں شریک نہیں ہوئے ۔حالانکہ صدر مملکت کا عہدہ صرف وفاق کی علامت کے طور پر تہتر کے آئین میں شامل ہے ۔اس کے علاوہ صدر مملکت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی تو انہوں نے اس تاریخی موقع پر اپنی پارٹی کی نمائیندگی سے اغراض کیوں برتا ۔حالانکہ وہ گذشتہ دور انیہ صدارت اپنی پرٹی کی چیئرمین شپ کے استحقاق کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ سر سلامت تو ٹوپیاں ہزار مل جاتی ہیں۔

پاکستان سلامت تو ہماری لیڈر شپ اور ہماری تمام تر کبریائی سلامت ہے ۔میاں نواز شریف صاحب نے ڈرونز حملوں اور ایبٹ آباد آپریشن کی بات کر کے عوامی نمائیندگی کا حق ادا کیا ۔لیکن افغان نیشنل گارڈز کے حملوں کو نظرانداز کرنا اور افغان بارڈر سے پاکستانی پوسٹوں پر امریکن حملوں اور دہشت گردوں کے حملوں کی بات سامنے نہیں آئی۔اس کے سدباب کی بات کیوں نہیں کی گئی۔یہ سامنے کی بات ہے کہ اگر ان حملوں کے جواب میں پاکستانی فوج اگر افغانستان کے اندر کاروائی کرے تو یقینا خطے میں جنگ کی شروعات ہو جائیں گی۔اس کے نتیجے میں انڈیا پاکستان کی پیٹھ پر وار کرنے کی کوشش کرے گا جس کے ردعمل میں پاکستان کے عظیم دوست چین کا چپ بیٹھا رہنا بعید از قیاس ہے ۔ایران بھی اس کا ردعمل ضرور ظاہر کرے گا ۔اس کیلئے کیا حکمت عملی وضح کی گئی کہ افغان نیشنل گارڈز ایسے حملوں سے باز رہیں ۔حربی اور خارجہ امور کے ماہرین اس زاویہ سے ضرور اگاہ رہے ہونگے اور یقینا اس کے تدارک کیلئے بھی اقدامات عمل میں لائے گئے ہونگے ۔اصل میں امریکہ خطے میں چین کو جنگ میں شامل کر کے اس کی معاشی ترقی کے اگے بند باندھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔یقینا چینی اور پاکستانی اکابرین اس کیلئے تیار ہو نگے ۔آل پارٹیز کانفرنس کا ہرگز یہ موضوع نہیں رہا ہوگا لیکن اس میں اصل موضوع کو بھی پوری طرح نمایاں اور اس کا احاطہ نہیں کیا گیا ۔اعلامیہ نامکمل اور عوامی نمائیندگی سے اور حقیقی جذبات سے عاری اور خالی ہے ۔پاکستان کو ساری اقوام عالم سے ہرگز نہ کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کو ئی دشمنی ہے و عناد ہے ۔پاکستان کے نمایاں اور حقیقی دشمن انڈیا اور امریکہ ہی ہیں ۔انڈین اور امریکن بلاک کے زیر اثر پاکستان دشمن سرگرمیاں اور پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں ۔اقوام عالم میں پاکستان ایک پروقار اور پاکستانی ایک قابل تکریم وقابل فخر قوم ہیں لیکن ہمارے اکابرین کی یونہی نامکمل اور غیر منطقی حکمت عملی کی وجہ سے ہمار ا قومی وقار اور ملی سلامتی ڈانوڈول رہتی ہے۔ٹھوس اور مدلل حکمت عملی اور پالیسی کے بغیر اقوام عالم میں مقام و مرتبہ کا حصول جاگتے میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے ۔ بہتر ہوتا کہ مستقبل کیلئے اگر خارجہ پالیسی کے نکات وضح کرنے کیلئے اوراس کو قومی مفادات کے ہم آہنگ بنانے کیلئے یہ فورم استعمال کر لیا جاتا ۔

ہر سیاسی پارٹی پوائنٹ سکورنگ کو سیاسی عمل کیلئے اساس قرار دیتی ہے ا س کیلئے وہ ایسی حکمت عملی پر عمل پیرا رہتی ہے جس میں وہ قوم پر اپنے احسانات کا بوجھ لا د سکے ۔سیاسی عمل اور سیاسی فکر کی یہ ناپختگی اور غیر منطقی فکر سیاسی اکابرین کو گمراہ کرتی ہے ۔قوم کے ان داتا بننے کی دوڑ میں ایک دوسرے کو بچھاڑنے کیلئے اسی طرز فکر کی وجہ سے قومی امور نظر انداز اور پس پشت رہ جاتے ہیں ۔امن کا سفید جھنڈا لہرانے سے یا امن کی فاختائیں اڑانے سے امن قائم نہیں ہو سکتا ۔امن قائم کرنے کیلئے مضبوط ومنظم طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔امریکن صدر اپنے ملک کے وقار اور سلامتی کیلئے اپنے ملک کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور جنگ برپا کیے ہوئے ہیں تاکہ ان کے ممکنہ دشمن ان کے ملک اور عوام کیلئے خطرہ نہ بن پائیں ۔وہ آج پاکستان کی قربانیوں اور کوششوں کو سبوتاژ کر کے صرف اس نقطے پر زور دیتے ہیں کہ ان کے ممکنہ دشمن کو پاکستان پناہ دے سکتا ہے ۔اپنے ہاتھوں کے تراشے صنم کے ہاتھوں زک کے خوف نے حقیقی دوست پر بھی شک ہی نہیں یقینی دشمنی کی مہر ثبت کر دی ۔امریکہ طالبان دشمنی میں پاکستان دشمنی پر اتر آیا ہے ۔ایسے میں امریکن کانگریس کے اراکین سے لیکر صدر تک پاکستان کے خلاف الزامات کی زبانی جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں ۔امریکہ میڈیا وار کے زریعے پاکستانی اکابرین کے حوصلے پست کر کے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے ۔حقیقت امریکن بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے بغیر امریکہ کبھی بھی افغانستان کے اندرکامیاب نہیں ہو سکتا۔نیٹو ممالک کے ساتھ کے باوجود دس سال سے افغانستا ن کے اندر امریکن اپنی پٹھو کرزئی گورنمنٹ کو کابل سے باہر منظم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کرزئی گورنمنٹ آج پاکستان کی وجہ سے کابل کے تخت پر جلوہ افروز ہے ۔آج اگر آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر کرزئی گورنمنٹ کی سپلائی لائن کاٹ دینے کا اعلامیہ جاری کر دیا جاتا تو کرزئی او ر اس کی کابینہ کے اراکین کا حشر جو طالبان کریں گے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ۔ببرک کارمل اور نجیب کا انجام زیادہ دور کی بات نہیں ۔امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوجوں کیلئے سپلائی لائن کیلئے پاکستان سے بہتر کوئی راہ نہیں ۔اس موقع پر ہمارے اکابرین کو چاہیے تھا کہ وہ نیٹو کی سپلائی منقطع کرنے کا عندیہ دیتے اور اس کا اعلامیہ جاری کیا جاتا ۔فرنٹ لائن اتحادی کے اعزاز سے نجات حاصل کرنے کا یہ سنہری موقع بھی ہمارے اکابرین نے گنوایا دیا ۔امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناتے امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ بنا کر طالبان دشمنی کا جو کمبل اوڑھا گیا تھا اس کو اتار پھینکنے کا یہ اچھوتا موقع تھا ۔ امریکن غلامی سے نجات حاصل کرنے کے زینے طے کرنا جانے کیوں ہمارے لیڈر صاحبان کیلئے کوہ پیمائی سے بھی بھاری ہیں ۔ ڈالر کے پجاری ڈالر کی غلامی سے شاید نجات نہیں چاہتے ۔حالانکہ پاکستانی عوام ڈالر کی اس غلامی سے تنگ اور ان حالات میں امریکہ کے خلاف بجنگ آمد ہیں ۔اوبامہ کے تازہ بیان کے رد عمل میں تما م سیاسی جماعتوں کے اکابرین کو نیٹو کی سپلائی روکنے اور امریکن اتحاد سے علیحدگی کا اعلامیہ جاری کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ سے اس کی توسیع کرا کے اس کو سند قرار دلانا چاہیے ۔پاکستان کے عوام اور پاکستانی دینی جماعتوں اورسیاسی جماعتوں کے عسکری وونگز کو امریکہ کے خلاف جنگ کیلئے تیاری کرنا چاہیے ۔اگر حکمران ایسا نہیں کرتے تو پھر یہ ثابت ہے کہ ہمارے حکمران پاکستان کے نہیں امریکہ کے زر خرید غلام ہیں ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *