Home / Articles / شاعر انسانیت : رابندر ناتھ ٹیگور

شاعر انسانیت : رابندر ناتھ ٹیگور

ڈاکٹر انور پاشا

Associate Professor

CIL / SLL&CS/ JNU , New Delhi

جدید ہندوستان کی تعمیر و تہذیب میں خطۂ بنگال غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس خطے نے علم، سیاست، مذہب، فلسفہ، آرٹ اور سائنس ہر شعبے میں اپنی مردم خیزی کی بے مثال روایت قائم کی ہے۔ جس روایت پر ہم تمام ہندوستانیوں کو بجا طور پر فخر ہے۔یہ روایت اس لیے بھی قابل تحسین رہی ہے کہ اس کی بنیادیں جتنی جدت پسندی اور انقلابی اقدار پر مبنی ہے، اتنی ہی اس کی جڑیں اپنے وطن کی سرزمین کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔اپنی مٹی اور اپنے عظیم ماضی سے اسی مثبت تعلق نے تمام تر جدت پسندی کے باوجود اس کلچر، آرٹ اور فلسفہ و فکر کو مغربی مرعوبیت اور ابتذال دونوں سے پاک رکھا۔رابندر ناتھ ٹیگور کی شخصیت قدیم و جدید کے اسی حسین امتزاج کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ ان کا دل اگر ماضی کی لازوال اقدار، وراثت اور آدرشوں کا ترجمان تھا تو دماغ جدید افکار و خیالات کی جولان گاہ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شخصیت زمانہ کی سرحدوں کو پھلانگ کر ایک بین الاقوامی لیجنڈ کا حصہ بن گئی ہے۔
جدید ہندوستان کے افق پر ٹیگور کا نمودار ہونا وقت کا عین تقاضا تھا۔مغرب کا سیاسی تسلط ، غلامی کا سنگین دور، تہذیبی Invasion، مذہبی احیا پرستی، افکار و عقائد کی کشاکش، قدیم و جدید کی آویزش ، علم و ادب کی نئی روشنی، یہ سارے عناصر و عوامل ایک نئے معاشرے کی تشکیل اور اس کی سمت و معیار کے تعین میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ ٹیگور کی شخصیت اور ان کے ذہن و شعور کی آبیاری میں ان تمام عناصرکے اثرات نے مثبت کردار ادا کیے۔ ان کے عہد کی تمام تر ترشی و شیرینی محلول ہو کر امرت بانی کا روپ دھارکر ان کی تخلیقات میں سما گئی۔ ان کی شاعری ہو یا ان کی کہانیاں، ناول ہوں یا ڈرامے، سفر نامے ہوں یا تقاریر اور مضامین، خطوط ہوں یا گیت یا کہ مصور ی ہر جگہ انسانیت کی آفاقی لو اپنی روشنی بکھیرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس اعتبار سے ٹیگور کی تخلیقات جتنی بنگالی ہیں اتنی ہی ہندوستانی بھی۔جتنی ہندوستانی ہیں اتنی ہی بین الاقوامی بھی اور جتنی ذاتی ہیں اتنی ہی عوامی اور کائناتی بھی۔ چونکہ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ جتنا عمیق اورو سیع تھا، انھوں نے اسی وسیع القلبی سے تمام حسین اور فطری انسانی اقدار کو اپنے دامن دل میں جگہ دی۔ انھوں نے نیک نیتی کے ساتھ انسانیت کے اتھاہ ساگر میں غوطے لگائے اور بحیثیت انسان ہر اس شے کو دل کی گہرائیوں میں اتارا جو انسانی تھی اور جس کی مستقل قدر و قیمت تھی۔ انسان کے دل کی ہر آرزو، حسرت، تمنا، کیفیت ، دکھ درد اور خواب ان کے تخیل اور وجدان کا حصہ بن کر ان کی تخلیقات میں رچ بس گئے ہیں۔ انھوں نے جو بھی قبول کیا اس کو اپنا لیا اور اس کو اپنے رنگ میں اتنا رنگ لیا کہ وہ ان کا اپنا ہو کر رہ گیا۔ ان کی تخلیقات میں سچائی کا وہ روپ ملتا ہے جو ذاتی احساس و تجربہ کے بغیر ممکن نہیں۔
رابندر ناتھ ٹیگور کو اپنی دھرتی اور اپنے وطن سے اٹوٹ محبت تھی۔ اس محبت کی بنیاد اگر ایک طرف محاسن فطرت اور اس سے ان کی بے پناہ انسیت پر ہے تو دوسری طرف اس دھرتی اور مادر وطن کے باسیوں سے اٹوٹ پر یم اور جذباتی وابستگی پر قائم ہے۔ مادر وطن اور اپنی دھرتی سے اس قدر ٹوٹ کر پیار کرنے کی نظیر دوسرے ہم عصر شعراء کے یہاں شاذو نادر ہی ملتی ہے۔
مادر وطن اور دھرتی سے وابستہ صبح و شام ہو یا موسم کے سرد وگرم ہوائوں کے مناظر قدرت ہوں، ندی ہوں یا پہاڑ، لہلہاتے کھیت ہوں یا چڑیوں کی چہچہاہٹ ، ایک ایک جزئیات کی جیتی جاگتی تصویر ٹیگور کی تخلیقات میں موجود ہے۔ مادر وطن سے ان کی جذباتی وابستگی اور اٹوٹ پریم کی لہران کی تخلیقات میں اس طرح سرائیت کرتی ہوئی ملتی ہے کہ ان کی فطرت ، شعور اور لاشعور کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ حب وطن کا جذبہ ان کی تخلیقات میں ایک فطری صفت کا روپ دھارن کرتا ہے۔
’’میری پر تھوی ہو تم
جگوں جگوں کی ، تم نے اپنی گود میں
مجھے لے کر بے کر اں آکاش میں
نہ تھکنے والے پیروں سے طواف کیا ہے
نظام شمسی کی ان گنت راتوں اور دنوں
اور قرنوں قرنوں تک تم نے مجھے اپنی مٹی میں جذب کر لیا…‘‘ (وسندھرا) وطن پرستی اور قومی شعور ٹیگور کو ورثے میں ملا تھا۔ سو دیشی تحریک سے ان کی وابستگی بھی رہی۔ قومی دھارے کو مثبت سمت عطا کرنے کی غرض سے انھوں نے کئی مضامین بھی لکھے اور تقاریر بھی کیں۔ جلیا نوالہ باغ میں نہتے ہندوستانی عوام کو انگریزوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا تو ٹیگور کو دلی صدمہ پہنچا اور انھوں نے انگریزی حکومت کے خلاف غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے انگریزی حکومت کے ذریعہ عطا کردہ ’’نائٹ‘‘ کا خطاب واپس کر دیا۔ جنگ آزادی میں انھوں نے اپنی سطح پر اہم کردار ادا کیا۔ مہاتما گاندھی ان کو گرودیو کہا کرتے تھے۔
ٹیگور نے اپنے ہم عصر بیشتر وطن پرست ادیبوں اور دانشوروں کے برعکس اپنی وطن پرستی کو تنگ یا محدود نہیں ہونے دیا۔ ان کے یہاں ہم وطنوں کی تمنائوں اور آرزوئوں کی سرحدیں عالم انسانیت کی تمنائوں اور آرزوئوں سے جا ملتی ہیں۔ انہیں اپنی دھرتی کے باسیوں، اور ہم وطنوں سے محبت اور جذباتی لگائو تھا۔ مگر غیر ممالک اور اقوام کے لیے نفرت اور تعصب کا شائبہ تک نہ تھا۔ اپنی دھرتی اور دھرتی باسیوں سے ان کی بے پناہ محبت تمام نبی نوع انسانیت کے لیے بیکراں جذبۂ محبت کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ خالص انسانیت کے پجاری ہیں اور بیگانہ پن کے تصور کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ا ن کی مشہور نظمیں گرو گوبند، پرواسی، وسن دھرا، بھارت تیرتھ، راشٹر گان وغیران کی جذبۂ حب الوطنی کے بہترین ترجمان ہیں۔
انسانیت سے بے پناہ محبت ٹیگور کو ’’اہنسا پرمودھرما‘‘ کے ا صولوں سے قریب کر دیتی ہے۔ وہ غلامی کی اذیت سے بے قرار تو ہوتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کے اندر قومیت کے جذبے کو بیدار کر کے آزادی کے حصول کی ترغیب دیتے ہیں۔ لیکن اس عظیم مقصد کے لیے تشدد اختیار کرنے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں چاہے مقصد کتنا ہی پاک و بلند کیوں نہ ہو، وطن پرستی کی کتنی بلند سطح کیوں نہ ہو، انسان کو ایسا عمل نہیں کرنا چاہیے جو انسانی دل اور اعلیٰ قدروں کے خلاف ہو۔ ان کے شاہکار ناول’’گورا‘‘ اور ’‘چار ادھیائے ‘‘ ان کی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہیں۔
رابندر ناتھ ٹیگور فطرتاً شاعر تھے اور شاعری ان کی رگ و پے میں رچی بسی ہوئی تھی۔ بحیثیت شاعر ان کی عظمت کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر کیا گیا۔ ان کے شعری مجموعے گیتانجلی پر نوبل انعام شاعری کے میدان میں ان کی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کو بین الاقوامی خراج تحسین تھا۔ ان کا شعری سرمایہ ایک دفتر کی حیثیت رکھتا ہے۔ طویل و مختصر نظموں، گیتوں اور چوپائیوں پر مبنی ان کے شعری مجموعوں کی تعداد کم و بیش پچاس ہے۔ تخلیقی عمل کے اس طویل سفر میں ذہنی و جذباتی اعتبار سے ٹیگور نشیب و فراز کی کئی منزلوں سے گزرے، لیکن ’’پریم‘‘ کی مضطرب موجیں شروع سے آخر تک ان کی شاعری میں ٹھاٹھیں مارتی نظر آتی ہیں۔ ان کے تخلیقی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان کے پریم کا تصور بھی ذات سے کائنات کی لامتناہی وسعتوں میں پھیلتا اور قوسِ قزح کی رنگینی بکھیرتا چلا گیا ہے۔ غم جاناں سے غم دوراں کی حدود میں پہنچ کر شاعر پوری کائنات اور انسانیت کا ہدی خواں بن گیا ہے۔
’’اس پوشیدہ دل میں/دل کی اتھاہ گہرائیوں میں
رہ رہ کر بج اٹھتی ہیں، آٹکراتی ہیں/بحر عالم کی لہریں۔!
اس دھڑکتے دل کو/لمحہ بھر بھی چین نہیں آرام نہیں
وہ دن رات بے قرار/بیدار ۔!!
اسے اب عمر بھر/کوئی اور کام نہیں ہے
سوائے اس کے…کہ /میں لامحدود سرحدوں کے خاکے اتاروں
امید سے بھر پور دیپ جلائوں/ان کو زبان عطا کروں، الفاظ دوں
ان میں محبت کا رس گھول دوں۔۔۔۔۔!
اور اس طرح من مندر کی مورت تیار کروں۔‘‘ (امر پریم)
کائنات، فطرت اور انسانیت سے رابندر ناتھ کا بے پناہ عشق لا شعوری طور پر عشق حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ان کے تخیل میں مناظر فطرت، انسان اور خالق کائنات تینوں ایک وحدت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ان کی نظر میں محبت یا پریم ہی بھگوان ہے۔ بچے کے لیے ماں کی مامتا، ایک انسان کا دوسرے انسان کے لیے قربانی اور ایثار کا جذبہ، عاشق کی اپنے محبوب سے محبت اس عشق حقیقی کا روپ ہیں۔ اس طرح ٹیگور عشق یا پریم کو محض تصوراتی اور وجدانی شکل میں نہیں دیکھتے بلکہ اس کا عملی روپ عام انسانوں کی روز مرہ کی زندگی میں متشکل ہوتے دیکھتے ہیں اور اسی کوکائنات کے لافانی اور ابدی حسن کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ وہ ویشنو شاعری اور تصوف کے رموز سے بھی متاثر ہیں، وہ اپنے دل کی دھڑکنوں میں تخلیق کی ابدیت کو دھڑکتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ مادی کائنات، فطرت اور زندگی سے ان کی محبت اپنے وجود کو جہاں نفس کے ساتھ ضم کر دینے پر مصر ہے وہیں مادی کائنات اور انسان کی ابدیت ان کی شاعری کے بنیادی محور ہیں۔ ان کے یہاں عرفان فطرت، عرفان ذات اور عرفان الٰہی کے مترادف ہے۔
’’یہ خوشبو
جو پھولوں کے دل میں تھر تھراتی ہے /وہ گیت
جو صبح کے اجالے میں سوئے ہوئے ہیں/وہ صبح
جوفصل بہار میں رقصاں ہیں/مست سبز سنہرے کھیت
جو سورج کی کرنوں میں نہائے ہوئے ہیں۔!
اسی خوشبو نے میرے جسم و جاں کی /تعمیر کی ہے
اور وہی میرے گیتوں کو /نت نئی شکلیں
نئے جذبات دیتے ہیں/میرے خیالوں کو تازگی بخشتے ہیں
کون ہے؟/جو مجھ میں مجھ کو قید رکھ سکتا ہے۔۔۔؟
مجھ کو /میرے بے کراں جذبات کو۔!!!‘‘
تصوف کے اثرات، بودھ افکار اورویشنوروایت نے ٹیگور کو سنیاسی یا تارک الدنیا بنا نے کی بجائے زندگی کی مکمل معنویت کا حامل بنایا۔انھوں نے زندگی کے اس تصور کو قبول نہیں کیا جو جسمانی تقاضے اور دنیاوی نعمتوں سے بھرپور لطف اندوزی کی ممانعت کرتا ہے۔مگر انھوں نے جسمانی عیش و تلذذ کو ہی مقصد حیات نہیں مانا، بلکہ عرفان زیست کے حصول کو زندگی کا نصب العین گردانا۔ زندگی کو مکمل اور ہمہ گیری کے ساتھ جینے کی آرزو ان کی شاعری میں جلوہ گر ہے۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے جنت کی پر سکون اور عیش و نشاط کی زندگی پر دنیاوی زندگی کی متحرک صفت اور دکھ سکھ سے بھرپور طرز حیات کو ترجیح دی۔
ؔ’’ اے جنت تم ہنسی لیے ہوئے ہو اپنے منھ پر، امرت پیتی رہو
اے دیوتائو! جنت تمہیں لوگوں کے سکھ کا استھان ہے
ہم لوگ پردیسی ہیں، جہان فانی جنت نہیں ہے
وہ توماں کی گود ہے مادر وطن ہے اسی لیے اس کی آنکھوںسے بہتی ہے
آنسوئوں کی دھارا، اگر دو دن کے بعد کوئی اسے چھوڑ جاتا ہے
دو لمحوں کے لیے
جتنے لمحے جتنے کمزور جتنے نالائق
جتنے گنہگار ہیں ان سب کو بیتا بانہ بازئووں کو پھیلا کر
کومل چھاتی سے بھینچ کر رکھنا چاہتی ہے
دھول سے اٹے ہوئے جسم کے لمس سے اس کی چھاتی میں ٹھنڈک پڑتی ہے
تمہاری جنت میں امرت دھارا بہاکرے
جہان فانی میں سکھ دکھ سے ملی ہوئی
پریم کی دھارا آنسوئوں کے پانی سے ہمیشہ تروتازہ بناتی ہوئی
دھرتی کے جنت نشاں حصوں میں جاری رہے۔‘‘ (جنت کو الوداع)
ٹیگور کی شاعری پر گرچہ رومانیت کا شدید غلبہ ہے لیکن ان کی رومانیت حقیقت کی زمین پر ٹکی ہوتی ہے۔ وہ اس فلسفۂ جمالیات کے قائل نہیں جو ادب برائے ادب پر اصرار کرتا ہے۔وہ فن اور حیات کے باہمی رشتے سے بخوبی واقف تھے، اس لیے انھوں نے حسن کی جستجو ضرور کی، لیکن زندگی کے مظاہرے کی ہی شکل میں۔ وہ زندگی کی محرومیوں، غم ناکیوں اور اذیتوں کو حسن سے مزین کرنے کی تمنا رکھتے ہیں اور حیات کی زہر ناکیوں میں شیرینی اور مدھر تا گھول دینا چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری میں بیشتر جگہوں پر تخیل پر تجربہ اور مشاہدہ حاوی نظر آتا ہے۔ ان میں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے چشم پوشی کی بجائے ان سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ موجود ہے۔ اس کی بہترین عکاسی ان کی مشہور نظم’’اے بار پھرائومورے‘‘(اب مجھے لوٹادو) میں ملتی ہے جو طوالت کے خیال سے یہاں پیش نہیں کی جا رہی ہے۔ ترقی پسند مصنفین کی الہ آبادکانفرنس میں ٹیگور نے نوجوان ادیبوں کے نام جو پیغام بھیجا تھا اس سے ان کے آفاقی شعور اور ادب و فن کے متعلق ان کے نظریات کا اندازہ ہوتا ہے:
’’آج ہمارا ملک ایک لق و دق صحرا ہے۔ جس میں شادابی اور زندگی کا نام و نشان نہیں ہے۔ ملک کا ذرہ ذرہ دکھ کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ہمیں اس غم و اندوہ کو مٹانا ہے اور از سر نو زندگی کے چمن میں آبیاری کرنا ہے۔ادیب کا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ملک میں نئی زندگی کی روح پھونکے، بیداری اور جوش کے گیت گائے ہر انسان کو امید اور مسرت کا پیغام سنائے اور کسی کو نا امید اور ناکارہ نہ ہونے دے۔ ملک اور قوم کی بہی خواہی کو ذاتی اغراض پر ترجیح دینے کا جذبہ ہر بڑے چھوٹے میں پیدا کرنا ادیب کا فرض عین ہونا چاہیے۔ قوم سماج اور ادب کی بہبودی کی سوگند جب تک ہر انسان نہ کھائے گا اس وقت تک دنیا کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا۔اگر تم یہ کرنے کے لیے تیار ہو تو تمہیں پہلے اپنی متاع کھلے ہاتھوں لٹانی ہوگی اور پھر کہیں تم اس قابل ہو گے کہ دنیا کے کسی معاوضے کی تمنا کرو، لیکن اپنے کو مٹانے میں جو لطف ہے اس سے تم محروم نہ رہ جائو۔‘‘ یاد رکھو تخلیق ادب بڑے جو کھم کا کام ہے۔ حق اور جمال کی تلاش کرنا ہے تو پہلے، انا ، کی کینچلی اتاردو۔ کلی کی طرح سخت ڈنٹھل سے باہر نکلنے کی منزل طے کرو۔ پھر دیکھو کہ ہوا کتنی صاف ہے۔ روشنی کتنی سہانی ہے اور پانی کتنا لطیف ہے۔‘‘(نیا ادب ، جنوری فروری 1941)
رابندر ناتھ ٹیگور کو جاودانی عطا کرنے میں گرچہ ان کی شاعری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، لیکن ان کی اختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں کی بساط کافی وقیع اور ہمہ جہت ہے۔ انھوں نے ایک ہزار سے زیادہ نظمیں اور دو ہزار سے بھی زیادہ گیتوں کی تخلیق کے علاوہ کثیر تعداد میں افسانے، ناول، ڈرامے اور ہم عصر مسائل و موضوعات پر بہت سارے مضامین اور مقالے لکھے۔حتیٰ کہ عمر کی آخری منزل میں بھی ان کی قوت تخلیق اور طبیعت کی جولانی کا اظہار مصوری کی صورت میں ہوا۔ ان کی تصانیف کی تعداد، معیار اور ان کی نگارشات کی بوقلمونی آج بھی قارئین کو متحیر کر دیتی ہے۔

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *