Home / Socio-political / حقیقت کیا؟

حقیقت کیا؟

حقیقت کیا؟

تیسری اورآخری قسط

سمیع اللہ ملک، لندن

اپنی خودمختاری کیلئے سب سے پہلے ہمیں بھیک کاپیالہ توڑناہوگااوراپنے ملک میں اشرافیہ (بدمعاشیہ)سے لیکر نیچے تمام کاروباری حلقوں سمیت ٹیکس کلچرکومتعارف کرواتے ہوئے ایک مثال پیش کرناہوگی اورٹیکس چورکوایک سنگین سزاکے مراحل سے گزارناہوگا۔ہمارے سابقہ وزیرخزانہ یوسف ترین اس بات کااعتراف کرچکے ہیں کہ ہمارے ملک میں صرف ایف بی آرمیں ۵۰۰ارب کی کرپشن ہورہی ہے اوراس کے علاوہ ملک کے دیگراداروں میں جولوٹ کھسوٹ کابازارگرم ہے اس کی روک تھام اورتطہیر کیلئے ایک الگ فورس بناے کی ضرورت ہے جوعدلیہ کے ایک خصوصی بنچ کے ماتحت کام کرے اوراس عدلیہ کواپنے احکام کی تعمیل میں کسی ایگزیکٹو آرڈرکی حاجت نہ ہو۔

اگرہماری خواہش ہے کہ پاکستان مضبوط اوراپنے پاوٴں پرکھڑاہو،دہشت گردی کااڈہ نہ بنے توامریکاکی ”وارآن ٹیرر“ کی پالیسی سے مکمل اجتناب کرناہوگا،امریکی مفادات کیلئے اپنے اداروں کے ستعمال سے مکمل گریزکرناہوگا۔پاکستان کواپنے پڑوسیوں چین،روس،ایران،ترکی ،سعودی عرب کے علاوہ او آئی سی کواعتمادمیں لیکروارآن ٹیررکی پالیسی کوازسرنوترتیب دیناہوگا۔ہمیں اپنی خودمختاری کومحفوظ کرنے کیلئے ان تمام ممالک کے ساتھ ایک گول میزکانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت ہے جبکہ یہودہنودکی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ امریکاکوافغانستان چھوڑنے سے قبل کسی نہ کسی بہانے پاکستان میں دھکیل دیاجائے اورامریکااپنی پوری طاقت کامظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کوکم از کم ایٹمی قوت سے محروم کردے تاکہ جہاں امریکااس خطے سے فتح کے شادیانے بجاتاہوارخصت ہووہاں یہودوہنودکواس خطے میں کھلی چھٹی مل جائے اوروہ اپنی طا قت کے بل بوتے پرگریٹراسرائیل اورمہابھارت کے خوابوں کی تکمیل کرسکیں۔اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اس خطے کے دوسرے ممالک مل کران خطرات کاتدارک کرنے کیلئے کوئی مشترکہ پالیسی وضع کی جائے اورامریکاکوباورکرایاجائے کہ وہ افغانستان کی حقیقی قیادت طالبان کوتسلیم کرتے ہوئے مذاکرات کرنے کی پہلی شرط یعنی اپنی افواج کے مکمل انخلاء کی واضح تاریخ کااعلان کرے۔

دنیامیں دانشوروں کی ایک کثیرتعدادجس میں امریکاکے کئی تھنک ٹینکس بھی شامل ہیں ان کی رائے یہ ہے کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد اس خطے میں چھ نئی مسلمان ریاستوں کے قیام کے بعدامریکادنیاکی واحدسپرطاقت توبن گیاہے مگر امریکاکومسلمانوں کے اس قدربڑے بلاک سے یہ خطرہ پیداہوگیاکہ قدرتی وسائل اورتیل کی بے بہادولت سے مالامال یہ ممالک مستقبل میں امریکااوراس کے اتحادیوں کی بجائے روس اورچین کے ساتھ الحاق کرکے امریکا کیلئے خطرہ نہ بن جائیں اور دنیاکی بڑی پچاس ملٹی نیشنل کارپوریشن جومکمل طورپریہودیوں کی ملکیت ہیں ان کے تجارتی مفادات کوچیلنج نہ کردیں ،اس لئے ضروری سمجھاگیاکہ اس خطے پربالادستی حاصل کرنے کیلئے کوئی ایسا منصوبہ عمل میں لایاجائے جس کوبہانہ بناکراس خطے کے قدرتی وسائل پرنہ صرف قبضہ کیاجائے بلکہ ان ممالک کواتناکمزوراوربے بس کردیا جائے کہ یہ سب امریکاکی طفیلی ریاستیں بن جائیں اورامریکاکی مرضی کے سامنے کوئی سرنہ اٹھاسکے جس کیلئے نائن الیون کا واقعہ رونماہوا۔

عراقی تیل پرقبضہ کرنے کیلئے انہوں نے صدام حکومت پر دنیاکوتباہ کرنے والے ہتھیاروں کی موجودگی کاالزام لگاکرعراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ۔لاکھوں بے گناہ عراقی افراد کوموت کے گھاٹ اتاردیاگیا،سارے ملک کوکھنڈرات میں تبدیل کردیاگیالیکن آج تک عراق سے کوئی ہتھیاربرآمدنہیں ہوسکاحالانکہ اس جھوٹ پرخودکئی اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے عالمی فورم پرمعافی بھی مانگی لیکن آج تک ڈک چینی کی کمپنی عراقی تیل کوشیر مادرسمجھ کر غٹاغٹ پی رہی ہے اوراب اسی عراقی تیل کی آمدن سے دوبارہ عراق کی تعمیروترقی کے ٹھیکے انہی مغربی ممالک نے حاصل کرلئے ہیں جنہوں نے عراق کوتباہ بربادکیااوراب نجانے عراق کوکب اس غلامی سے نجات ملے گی؟

یادرہے کہ پاکستان کی صورتحال عراق سے مختلف ہے اور اس واران ٹیررمیں پاکستان کاکلیدی کردارہے ۔اگروہ اپنے تمام ہمسایہ دوستوں کواعتمادمیں لیکرامریکاسے یہ کہہ دے کہ وہ آج کے بعد نیٹو سپلائی کی راہداری سے معذورہے تویکدم صورتحال نیچے آجائے گی اورعالمی طاقتیں یقینا سنجیدگی سے اس مطالبے پرغورکریں گی کہ اگرپاکستان اپنی سلامتی کیلئے اس حدتک آگیاہے توان کواپنی پوری سٹریٹجی تبدیل کرنی پڑے گی۔ہمیں امریکااوران کے اتحادیوں کویہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی اورعسکریت پسندی ان کے رویے کے نتیجے میں پھیلی ہے۔روس کوشکست دینے کیلئے انہی افغان پربھروسہ کرتے ہوئے نہ صرف ان کوہر عالمی فورم پرمجاہدین کاخطاب دیتے ہوئے ان کی پذیرائی میں سب سے بڑاکردارخودامریکااوراس کے مغربی اتحادیوں نے سرانجام دیابلکہ مکمل تربیت کے ساتھ ہرقسم کااسلحہ اورمالی مددبھی فراہم کی ۔اسامہ بن لادن اوران کے بیشمارساتھیوں کواپنے مقاصد کیلئے استعمال کیاعلاوہ ازیں اس وقت دنیاکے تمام ممالک سے نوجوان مسلمان بچوں کواس جنگ کاایندھن بنانے کے بعدجب روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیاتوامریکااوراس کے اتحادی ان سب کوبے یارومددگارچھوڑکراپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑکرساراملبہ پاکستان پرڈال کر چلے گئے۔

ہمیں امریکاکی دشمنی مول لینے کی ضرورت نہیں بلکہ دانشمندی اورمضبوط اعصاب کے ساتھ اس مشکل کی گھڑی سے نکلنے کیلئے سرجوڑکربیٹھنے اشدضرورت ہے۔حالات اورتاریخ سے جوسبق ملتاہے کہ امریکانے آج تک اپنے کسی بھی کمزوردوست کاساتھ نہیں دیابلکہ کمزورسے کمزوردشمن کیوباجیساپڑوسی ابھی تک اپنے پاوٴں پرنہ صرف کھڑاہے بلکہ اس کی خودمختاری کوپامال کرنے کی آج تک امریکاکوجرأت نہیں ہوسکی۔امریکاسے برابری کی سطح پرتودوستی نبھائی جائی سکتی ہے لیکن اس سے کم سطح پرامریکااپنے مفادات پراپنے دوستوں کوقربان کرنے سے کبھی گریزنہیں کرتا،اس کی بیشمارمثالیں موجودہیں۔اس خطے میں چین ایک بہت بڑی عالمی اقتصادی قوت بن کر ابھراہے اورامریکااس کی صنعتی ترقی سے خوفزدہ ہے حالانکہ امریکاخود۱۴ٹریلین ڈالر کی اکانومی والا ملک ہے۔ایک مشہورسابقہ برطانوی سفارتکار ٹم کولارڈ(Tim Collard)جس نے چین اورجرمنی میں برسوں اپنی خدمات سرانجام دی ہیں اس نے ۲۴ستمبر۲۰۰۹ء کے ”دی ٹیلیگراف“میں اپنے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا”کہ اس وقت امریکاچین کا۲ٹریلین ڈالرکامقروض ہے“ اس لئے یہ بعیدازقیاس نہیں کہ آئندہ آنے والے وقت میں وہی ملک سب سے زیادہ طاقتورہوگاجس کے پاس دنیاکی اقتصادی منڈیاں ہونگی اورچین کی بے پناہ قوت اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ چین جواس وقت ہرقسم کی خانہ جنگیوں سے گریزکرتاہوا آگے بڑھ رہاہے بالآخرامریکااوردنیاپرحکومت کرنے والی کارپوریشنزکواقتصادی طورپرں شکست سے دوچارکردے گا ۔اس لئے امریکااس ہزیمت بچنے اورچین کی اقتصادی ناکہ بندی کیلئے اس خطے میں بھارت کوتیارکررہاہے لیکن کیا بھارت امریکاکی خواہشات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتاہے؟ شائدیہ توممکن نہیں لیکن بھارت وقتی طورپراپنے مفادات کے حصول کیلئے امریکاکواستعمال ضرور کررہاہے۔

حقائق یہ ہیں کہ امریکااس خطے میں اور کمزورہوگیاہے ۔تیونس اورمصراس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔بحرین میں سعودی فوج امریکی ”این اوسی“کے بغیر بھیجی گئی ہے ،ترکی نیٹوکارکن ہوتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی خود بنارہاہے ،چین اورروس اس خطے میں ایک واضح کردارکیلئے میدان میں اتررہے ہیں اس لئے اب شائدامریکاپاکستان کوجبردھونس اورطاقت کے ذریعے مزیدخوفزدہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن یہ ہمارے حکمرانوں کی اعصاب اورآزمائش کی جنگ بھی ہے اوریہ فریضہ صرف اورصرف وہ ایماندارقیادت ہی سرانجام دے سکتی ہے جس کوپوری قوم کی حمائت حاصل ہو۔امریکی سینیٹرجان کیری نے پاکستان آنے سے قبل افغانستان میں میڈیاکے سامنے بیان دیتے ہوئے پاکستان سے جواب طلب کیاکہ وہ” اسامہ کی موجودگی کی وضاحت کرے اوراگر آئندہ بھی امریکاکوایبٹ آبادجیسا آپریشن کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تووہ تاخیرنہیں کرے گا “اورپھر پاکستان میں عسکری اورسیاسی قیادت سے ملاقات کے بعد میڈیامیں صاف صاف کہاکہ” میں یہاں ایبٹ آبادکے واقعے پرمعذرت کرنے نہیں آیا“ ۔

پاکستانی عوام نے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادکا حشردیکھ لیاہے ۔ہماری سیاسی وعسکری قیادت اورجان کیری کے مشترکہ اعلامیہ کی گونج ابھی کانوں سے محونہیں ہوئی تھی کہ اسی دن دو ڈرون حملوں نے پاکستان کے چھ شہریوں کے پرخچے اڑادیئے۔جان کیری نے امریکاپہنچتے ہی میڈیاکویہ اطلاع دی کہ پاکستانی قیادت نے ایک دفعہ پھر وارآن ٹیررمیں ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی ہے اوراب ہم الفاظ پرنہیں بلکہ زمینی حقائق پرعملدرآمدکودیکھ کرکوئی فیصلہ کریں گے اوراس سے اگلے دن ہی نیٹوکے ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی فضائی حدودکوایک دفعہ پھرپامال کرتے ہوئے کئی میل اندرگھس کرپاکستانی سیکورٹی فورسزپرفائرنگ کرکے ایک جوان کوزخمی کردیا۔صدراوبامہ نے بی بی سی کے اینڈریوما ر شو میں ایک دفعہ پھر کہاکہ” اگرپاکستان میں کسی اورطالبان یاالقاعدہ لیڈرکاپتہ چلاتووہ ایبٹ آبادجیسے یکطرفہ آپریشن کاحکم دیں گے“۔

پچھلے چندسالوں میں صرف ہمارے سیکورٹی اداروں پراب تک ۱۲۱حملے کئے گئے ہیں لیکن ابھی تک کسی واقعے کی تحقیقات سے قوم کومطلع نہیں کیاگیا۔ قوم ابھی ۲مئی کے ایبٹ آباد آپریشن میں امریکی یکطرفہ آپریشن سے سنبھلی نہیں تھی کہ ۲۲مئی ساڑھے دس بجے شب نیوی کے مہران بیس پردہشتگردوں کے حملے نے پوری قوم کے اعتمادکوبری طرح مجروح کردیاہے اورہماری ملی غیرت کاتقاضہ ہے کہ فوری طورپربااختیارکمیشن بنایاجائے اوران دونوں واقعات میں نااہلی کے ذمہ داروں کوبلاتفریق ہرحال میں کیفرکردارتک پہنچایاجائے۔ پاکستانی قوم مئی ۲۰۱۱ء کے ان دوسانحوں کوکبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔

قارئین!اس تجزیہ کے بعد آپ کوکسی حدتک اندازہ ہوگیاہوگاکہ کیاامریکااورپاکستان واقعی کسی تصادم کے راستے پرگامزن ہیں یاپھر دونوں طرف موجودبعض لابیاں خواہ مخواہ چائے کی پیالیوں میں طوفان برپاکرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔یقینا کسی حد تک آپ پریہ بھی واضح ہوچکاہوگاکہ موجودہ حالات میں امریکااورپاکستان تعلقات توڑنے کے متحمل نہیں ہوسکتے اوراگروہ ترک تعلقات یاکسی تصادم کی طرف جاتے ہیں تودونوں ممالک پرکیااثرات مرتب ہونگے۔لگتاہے کہ جب تک این آراوکے تحت درآمدحکومت موجودرہے گی شائستہ مکالمے کے ذریعے سمجھنے اورسمجھانے کی کوششیں جاری رہیں گی تاوقتیکہ صدراوبامہ اس کارنامے کی بنیادپردوبارہ اپنے اگلے الیکشن میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرلیتے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *