Home / Book Review / حسین الحق کے افسانے: ایک تنقید ی نظر

حسین الحق کے افسانے: ایک تنقید ی نظر

نامِ کتاب: حسین الحق کے افسانے:  ایک تنقید ی نظر

مصنف: عبدا لرحیم

ضخامت:  176صفحات

قیمت: 200روپئے

ناشر: ایجو کیشنل  پبلشنگ ہاؤس،  دہلی

مبصر: عبدا لرزاق زیادی

ریسرچ اسکالر،جواہر لال نہرو یو نیور سٹی، نئی دہلی۔67

           اردو فکشن کی تمام اصناف میں مختصر افسانہ ابتدا ہی سے مقبول اور ہردلعزیز صنف رہا ہے ۔بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اگرچہ اس میں موضوعات ،تکنیک اور اسلوب و اظہار کی سطح پر مختلف تبدیلیاں رونما ہو ئیں لیکن پھر بھی اس کی اہمیت و افادیت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ہر دور میں اس میں اضافہ ہی ہوا۔آج کی مصروف ترین اوربھا گم بھاگ زندگی میں افسانے کی قدرو قیمت اور بھی بڑھ گئی ہے۔کیونکہ یہی وہ ادبی صنف ہے جس میں انسان کو فرصت کے لمحات میں اپنی زندگی کا سہی معنوں میں عکس دیکھائی دیتا ہے ۔ اسی لیے موجودہ دورکو فکشن اور بالخصوص افسانے کے دور سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

           جس طرح ہر دور میں اردو افسانے کی مقبولیت کی اساس موضوعاتی انفرادیت ا ورتکنیکی گونا گونیت کے ساتھ ساتھ اس کی کثرت تاثر و تاثیر کو قرار دیا جاتا ہے اسی طرح ان کے لکھنے والوں کی ادبی قدر وقیمت ا ن کے خود تراشیدہ اندازواسلوب سے قائم ہے۔رومانویت ہو یا حقیقت نگاری یا پھر جدیدیت ہو یا مابعدجدیدیت ہر دور میں افسانہ نگاروں کی ایک ایسی جماعت ضرور نظرآجاتی ہے جن کی ادبی شناخت کا دارو مدار موضوعات کے علاوہ ا ن کے منفر انداز بیان اور اسلوب و اظہارپرہے۔حسین الحق کا شمار بھی اسی گروہ میں ہوتا ہے جس نے اپنے منفرد انداز و اسلوب کی بدولت نہ صرف قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی بلکہ ادب میں رائج تما م تر پروپیگنڈوں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ایک نئی راہ نکالنے میں بھی کامیاب رہا۔

          اردو فکشن میں حسین الحق کا نام محتاج تعارف نہیں۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے وہ تواتر کے ساتھ ناول اورافسانے کے علاوہ مختلف موضوعات پر متعدد علمی و ادبی مضامین بھی لکھ رہے ہیں۔نیز انھوں نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں بچوں کا ایک رسالہ بھی ’’انوار صبح‘‘ کے نا م سے جاری کیا تھا۔ اگرچہ حسین الحق نے اپنی پہلی کہانی 1958ء میں ـ’’کتاب کھوگئی‘‘ کے نام سے لکھی تھی لیکن انھوں نے’’جیسے کو تیسہ‘‘ جو کہ تیج ویکلی دہلی میں شائع ہوا تھا، لکھ کر 1966ء میں باقاعدہ طور پر ادبی دنیا میں قدم رکھا اور تا ہنوز ان کا قلم رواں دواں ہے۔ملک و بیرون ملک کا شاید ہی کوئی ایسا معتبر و معیاری رسالہ ہو جس میں ان کی تخلیقات زیور طباعت سے آراستہ نہ ہوں۔ اب تک ان کے دو ناول ’’فرات ‘‘اور’’بولومت چپ رہو‘‘  کے علاوہ سات افسانوی مجموعے شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں۔

          زیر تبصرہ کتاب’’حسین الحق کے افسانے: ایک تنقیدی نظر‘‘میں حسین الحق کے مطبوعہ ساتوں مجموعوں مثلاً’’ پس پردہ شب،صورت حال،بارش میں گھرا مکان، گھنے جنگلوں میں، مطلع،سوئی کی نوک پر رکا لمحہ اورنیو کی اینٹ‘‘ کو صاحب کتاب نے  شامل کیا ہے ،ساتھ ہی اہم افسانوں کا تنقیدی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ حسین الحق کے افسانوں کو سامنے رکھتے ہوئے حسین الحق کے فکرو فن کا جائزہ لیا ہے۔اگرچہ یہ کتاب حسین الحق کے افسانوں کی تنقید و تجزیہ پر مشتمل ہے لیکن کئی حیثیتوں سے یہ کتاب بڑی اہم اور لائق مطالعہ ہے مثلا اس میں اردو  افسانے اوراس کی تاریخی ارتقا کے علاوہ مختلف تحریکات و رجحانات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔

          زیر نظر کتاب پیش لفظ کے علاوہ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب اردو افسانہ سے متعلق ہے جس میں مختلف ناقدین کے اقوال کی روشنی میں افسانہ کی تعریف اور اس کے اجزائے ترکیبی سے بحث کی گئی ہے۔دوسرا باب مختصر افسانے کی تاریخ پر مبنی ہے۔اس میں مصنف نے افسانے کی پیدائش اور پھر اس میں مختلف تحریکات و رجحانات کے زیر اثر پیدا ہونے والے نشیب و فراز کا بڑی خوبصورتی کے ساتھ جائزہ لیاہے۔تیسرا باب حسین الحق کے سوانحی کوائف ،شخصیت کی تعمیر و تشکیل اور ان کے عہد سے متعلق ہے جو کہ کئی حیثیتوں سے بہت ہی اہم اور کارآمد ہے۔ چوتھے باب میں حسین الحق کے نمائندہ افسانوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیاگیا ہے۔اگرچہ اس میں مصنف نے طوالت کے خوف سے ان کے چوالیس(44)افسانوں کو ہی شامل تجزیہ کیا ہے لیکن پھر بھی اس کو اس کتاب کا سب سے اہم باب کہا جاسکتا ہے ۔تجزیہ کے دوران مصنف نے حسین الحق کے یہاں موجود موضوعات و مسائل،افکارو کرداراور انداز و اسلوب پربڑی گہرائی وگیرائی سے روشنی ڈالی ہے جس سے افسانہ نگار کے تمام تر فکری و فنی امتیازات نکھر کر سامنے آگئے ہیں۔

زیر مطالعہ کتاب عبد الرحیم کی پہلی اور تازہ ترین تصنیف ہے ۔اسے کتابی شکل میں لاکر انھوں نے نہ صرف علمی و ادبی حلقے میں حسین الحق کو متعارف کرانے کی طرف پیش قدمی کی ہے بلکہ اسے حسین الحق شناسی کے پہلے زینے سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔مصنف نے بڑی خوش اسلوبی اور تن دہی کے ساتھ نہایت ہی سادہ و سلیس زبان میں افسانہ نگار کی تمام تر فکری و فنی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔

          کتاب کی طباعت بہت ہی عمدہ اور دلکش ہے۔سرورق بھی بے حدحسین اور جاذب نظر ہے ۔نیز سر ورق کے بیچوں بیچ حسین الحق کی جوانی کی تصویر نے اس کی جاذبیت میں مزید اضافہ کردیاہے ۔کتاب کی ضخامت کے اعتبار سے قیمت کچھ زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ میرے خیال سے اگر اس کی قیمت سو ڈیڑھ سو ہوتی تو بہتر ہوتا۔دورانِ مطالعہ اگرچہ پروف کی کچھ خامیاں نظر آجاتی ہیں لیکن پھر بھی یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت ہی اہم اور قابل مطالعہ ہے۔

          بہرحال بحیثیت مجموعی ’’حسین الحق کے افسانے: ایک تنقیدی نظر ‘‘کو عبد الرحیم کی ایک نہایت ہی عمد ہ کاوش اور علمی و ادبی سرمایے میں بیش بہا اضافہ کہا جاسکتا ہے۔میرے خیال سے ادب اور بالخصوص صنف افسانہ سے دلچسپی رکھنے والے ہر قاری کے لیے یہ کتاب ایک انمول تحفے کی حیثیت رکھتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مصنف کی اس کوشش کو بنظر تحسین دیکھا جائے گا اور علمی و ادبی حلقے میں نہ صرف اس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی بلکہ ادب کے باذوق قارئین اسے ہاتھوں ہاتھ لے کر مصنف کی ہمت و حوصلہ افرائی بھی کریں گے۔

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *